کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 300
جہیز دے دیا گیا ہو، اس کی آڑ میں اسے وراثت سے محروم کرنا روشن خیالی کا ہی شاخسانہ ہے۔ سوال میں ۲۰ کنال کی تقسیم کا بھی دریافت کیا گیا ہے، اس کے متعلق عرض ہے کہ منقولہ یا غیر منقولہ جائیداد کے بارہ حصے کر لیے جائیں پھر ان سے دو ، دو حصے فی لڑکا اور ایک ، ایک حصہ لڑکی کو دے دیا جائے۔ اس کے بعد پٹواری کا کام ہے کہ وہ زمین کو مذکورہ حصص کے مطابق تقسیم کرے، ویسے ایک لڑکے کا حصہ ۳ کنال ۶ مرلے اور ۶ سرساہی ہے۔ جب کہ لڑکی کا حصہ ایک کنال تیرہ مرلے اور تین سرساہی ہے۔(واللہ اعلم)
وصیت کی موجودگی میں ترکہ کی تقسیم
سوال:ہمارے ہاں ایک لڑکی فوت ہوئی ہے، اس کی تین بہنیں اور دو بھائی ہیں، اس نے کچھ رقم اور زیورات ترکہ چھوڑا ہے اس نے وصیت کی تھی کہ رقم مسجد کو دے دیں اور زیورات میری بہنوں کو دے دیں، بھائیوں کا اس میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس کی رقم جو سات لاکھ اور زیورات چودہ لاکھ روپیہ مالیت کے ہیں، اس کے متعلق شرعی کیا حکم ہے؟
جواب:شرعی طور پر وصیت کے کچھ اصول و ضوابط ہیں، پہلا اصول یہ ہے کہ کسی وارث کو نقصان پہنچانے کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’آدمی یا عورت ساٹھ سال تک اللہ کی عبادت کرتے رہتے ہیں لیکن جب موت آتی ہے تو وصیت کر کے اپنے ورثاء کو نقصان پہنچا جاتے ہیں، اس وجہ سے ان پر جہنم کی آگ واجب ہو جاتی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو راویٔ حدیث ہیں، نے اس حدیث کو بیان کرنے کے بعد یہ آیت تلاوت فرمائی:
﴿ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصٰى بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ١ۙ غَيْرَ مُضَآرٍّ١ۚ… ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيْمُ ﴾ [1]
’’اس وصیت کے بعد جو کی جائے اور قرض کے بعد جب کہ دوسرے کو نقصان نہ کیا گیا ہو یہ اللہ کی طرف سے ایک تاکیدی حکم ہے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے، یہ اللہ کی مقرر کی ہوئی حدیں ہیں۔جو اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا اُسے اللہ ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی اور ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہے گا اور یہی بڑی کامیابی ہے۔‘‘ [2]
یہ روایت شہر بن حوشب کی وجہ سے اگرچہ ضعیف ہے تاہم مسئلہ کے ثبوت کے لیے مذکورہ آیت ہی کافی ہے۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ وصیت ایسے وارث کے لیے نہ ہو جسے اس کی جائیداد سے حصہ ملنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہٰذا اب ہر کسی وارث کے لیے وصیت جائز نہیں ہے۔‘‘ [3]
اگر دوسرے ورثاء اس قسم کی وصیت کو برداشت کر لیں تو وارث کو وصیت کی جا سکتی ہے جیسا کہ ایک روایت میں اس کی صراحت ہے۔ [4] تیسرا اصول یہ ہے کہ وصیت تہائی مال سے زائد نہ ہو، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کو اپنے ترکہ سے ایک تہائی وصیت کرنے کی اجازت دی تھی۔ [5]
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اگر لوگ وصیت کو ایک تہائی سے کم کر کے ایک چوتھائی تک کر لیں تو مجھے زیادہ پسند
[1] ۴/النساء:۱۲۔
[2] ابوداود، الوصایا: ۲۸۶۷۔
[3] ابن ماجہ، الوصایا: ۲۷۱۲۔
[4] بیہقی، ص: ۲۶۳،ج۶۔
[5] صحیح بخاری، الجنائز: ۲۱۱۶۔