کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 298
باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَهٗۤ اِخْوَةٌ فَلِاُمِّهِ السُّدُسُ ﴾[1] ’’اگر میت کے بہن بھائی موجود ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ ہے۔‘‘ چھٹا حصہ نکالنے کے بعد باقی ترکہ بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ بھائی کو بہن سے دو گنا ملے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ كَانُوْۤااِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١﴾[2] ’’اگر کئی بہن بھائی یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے ہوں تو مرد کو دو عورتوں کے برابر حصہ ملے گا۔‘‘ اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میت کی جائیدادد کو چھ حصوں میں تقسیم کر دیا جائے، ان میں ایک حصہ والدہ کو، دو بھائیوں میں سے ہر بھائی کو دو، دو حصے اور بہن کو ایک حصہ دیا جائے، مثال کے طور پر اگر زیورات۶ تولہ ہیں تو ایک تولہ والدہ کو دو، دو تولے ہر بھائی کو اور ایک تولہ بہن کو دے دیا جائے۔ (واللہ اعلم) نابالغ بچے کے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا سوال ایک آدمی فوت ہوا، اس کا ایک بچہ بہت چھوٹا تھا، اور اسے وراثت میں ڈھیروں مال ملا، کیا بچے کے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے، قرآن و حدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں؟ جواب شرعی احکام اس انسان پر لاگو ہوتے ہیں جو عاقل، بالغ اور مسلمان ہو اور فرضیت زکوٰۃ کے لیے اس کا صاحب نصاب ہونا بھی ضروری ہے، بچے کے مال میں سے زکوٰۃ دینے یا نہ دینے کے متعلق فقہاء کا بہت اختلاف ہے لیکن ہمارے رجحان کے مطابق بچے کے مال میں سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ﴾[3] ’’ان کے اموال میں سے آپ زکوٰۃ وصول کریں اور اس کے ذریعے انہیں پاک کریں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں بالغ اور غیر بالغ کی کوئی قید نہیں ہے نیز زکوٰۃ سے مقصود غرباء و مساکین کا فائدہ کرنا ہے لہٰذا ان کا حصہ نکالنا ضروری ہے۔ اس سلسلہ میں درج ذیل روایات بھی بطور تائید پیش کی جاسکتی ہیں اگرچہ سند کے اعتبار سے ان میں کچھ ضعف پایا جاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی یتیم کا کفیل ہو اسے چاہیے کہ وہ اس کے مال کو تجارت میں لگائے اسے یونہی نہ چھوڑے رکھے کہ اسے زکوٰۃ ختم کر دے۔‘‘ [4] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یتیموں کے اموال کو تجارت میں لگاؤ، مبادا نہیں زکوٰۃ ختم کر دے۔‘‘ [5]
[1] ۴/النساء:۱۱۔ [2] ۴/النساء:۱۷۶۔ [3] ۹/التوبۃ:۱۰۳۔ [4] ترمذی، زکوٰۃ: ۶۴۱ [5] بیہقی، ص: ۱۰۷،۹،۴۔