کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 295
تعالیٰ ہے: ﴿ يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ۚ ﴾[1] ’’اللہ تعالیٰ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے برابر ہے۔‘‘ مرحوم کے ترکہ مکان کی مالیت دو کروڑ ہے اس کا آٹھواں حصہ پچیس لاکھ بیوہ کو دیا جائے، باقی ایک کروڑ پچھتر لاکھ کو تین بیٹوں اور چار بیٹیوں میں تقسیم کرنے کے لیے باقی ماندہ ترکہ کے دس حصے کیے جائیں، ایک حصہ سترہ لاکھ پچاس ہزار فی لڑکی اور پینتیس لاکھ فی لڑکے کے حساب سے اسے تقسیم کر دیا جائے۔ (واللہ اعلم) بہن اور بھتیجے، بھتیجیاں ورثا ہوں تو تقسیم سوال ایک عورت فوت ہوئی ہے، اس کی ایک حقیقی بہن، چار بھتیجے اور تین بھتیجیاں زندہ ہیں، اس کا کل ترکہ 47 کنال 10 مرلے زرعی رقبہ ہے، ان ورثاء میں یہ جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی؟ اولین فرصت میں جواب دیں۔ جواب بشرط صحت سوال واضح ہو کہ مرحومہ کے ترکہ سے نصف جائیداد اس کی حقیقی ہمشیرہ کو ملے گی، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَيْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ١ۚ ﴾[2] ’’اگر کوئی شخص مر جائے جس کی اولاد نہ ہو اور ایک بہن ہو تو اس کے لیے چھوڑے ہوئے مال کا آدھا حصہ ہے۔‘‘ بہن کو مقررہ حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ مرحومہ کے چار بھتیجوں کے لیے ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دے کر جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘ [3] سوال میں ذکر کردہ صورت میں میت کے قریبی مذکر رشتہ دار اس کے بھتیجے ہیں، بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا اور وہ میت کے بھتیجوں کے ساتھ عصبہ نہیں بنیں گی، علم میراث کی رو سے صرف چار آدمی اپنی بہنوں کو عصبہ بناتے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے: بیٹا اپنی بہن کو عصبہ بناتا ہے۔ پوتے کی موجودگی میں پوتی عصبہ بنتی ہے۔ حقیقی بھائی، اپنی حقیقی بہن کو عصبہ بنائے گا۔ پدری بھائی اپنی پدری بہن کو عصبہ بناتا ہے۔ بھتیجا اور چچا اپنی بہنوں کو عصبہ نہیں بناتے، اس بنا پر میت کی بھتیجیوں کو کچھ نہیں ملے گا، میت کا کل ترکہ 950 مرلے زرعی زمین ہے جو 47 کنال 10 مرلے کے برابر ہے ان کا نصف حقیقی بہن کو اور باقی نصف میت کے بھتیجوں میں تقسیم ہو گا، یعنی 475 مرلے بہن کو اور 75:118 مرلے ہر بھتیجے کو ملیں گے۔ (واللہ اعلم) رخصتی سے قبل منکوحہ کا حصہ سوال ایک آدمی نے کسی عورت سے نکاح کیا لیکن رخصتی نہیں ہوئی تھی اب وہ وفات پا چکا ہے کیا منکوحہ اس کے ترکہ کی حقدار ہے؟ اگر ہے تو کس قدر؟ نیز اس کے پس ماندگان میں سے دو حقیقی بہنیں اور ایک چچا زاد بھائی ہے، ان کے علاوہ اس کی پھوپھی بھی زندہ ہے۔ ایسے حالات میں اس کی جائیداد کیسے تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کے مطابق فتویٰ دیں۔
[1] ۴/النساء:۱۱۔ [2] ۴/النساء:۱۷۶۔ [3] صحیح بخاری، الفرائض:۶۷۳۵۔