کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 291
﴿وَ اِنْ كَانُوْۤااِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ ﴾[1] ’’اگر میت کے پیچھے کئی بھائی اور بہنیں ہیں تو مرد کے لیے دو عورتوں کے برابر حصہ ہے۔‘‘ سہولت کے پیش نظر مقتول کی جائیداد کے چھ حصے کر لیے جائیں، ایک حصہ ماں کو، دو دو حصے بھائیوں کو اور ایک حصہ بہن کو دے دیا جائے۔ (واللہ اعلم بالصواب) بھائی کی وراثت سے حصہ لینا سوال ہمارے بڑے بھائی فوت ہوئے ہیں پسماندگان میں ایک بیوی، ایک بیٹی، والدہ، دو بھائی اور ایک بہن ہے۔ اس کی جائیداد کو شرعی طور پر کیسے تقسیم کیا جائے گا؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔ جواب بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں سب سے پہلے مرحوم کے ذمے اگر کوئی قرض وغیرہ ہے تو اس کی ادائیگی ضروری ہے پھر وصیت کا اجراء کیا جائے بشرطیکہ وہ کسی وارث کے لیے نہ ہو اور جائز کام کے لیے کل ترکہ کا 1/3 سے زیادہ نہ ہو، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مِنْۢ بَعْدِ وَصِيَّةٍ يُّوْصِيْ بِهَاۤ اَوْ دَيْنٍ١﴾[2] ’’ان حصوں کی تقسیم اس وصیت کے بعد ہے جو مرنے والا کر گیا ہو یا ادائے قرض کے بعد ہے۔‘‘ ادائے قرض اور نفاذ وصیت کے بعد تقسیم ترکہ حسب ذیل طریقہ کے مطابق ہو گی۔ ٭ بیوہ کو کل ترکہ سے آٹھواں حصہ دیا جائے، کیونکہ میت کی اولاد موجود ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ ﴾[3] ’’اگر تمہاری اولاد ہے تو ان بیویوں کو تمہارے ترکہ سے آٹھواں حصہ ملے گا۔‘‘ ٭ ایک بیٹی کو کل ترکہ کا نصف دیا جائے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اِنْ كَانَتْ وَاحِدَةً فَلَهَا النِّصْفُ١﴾ [4] ’’اور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لیے آدھا ہے۔‘‘ ٭ اولاد کی موجودگی میں ماں کو چھٹا حصہ ملتا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لِاَبَوَيْهِ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا السُّدُسُ ﴾[5] ’’اور میت کے والدین میں سے ہر ایک کے لیے اس کے ترکہ سے چھٹا حصہ ہے اگر اس کی اولاد موجود ہے۔‘‘ ٭ مقررہ حصص دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ بہن بھائیوں میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک بھائی کو بہن سے دوگنا حصہ ملے،
[1] ۴/النساء:۱۷۶۔ [2] ۴/النساء:۱۱۔ [3] ۴/النساء:۱۲۔ [4] ۴/النساء:۱۱۔ [5] ۴/النساء:۱۱۔