کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 29
ہوں۔ اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے ایک ہاتھ قریب آتا ہے تو میں اس سے دو ہاتھ قریب ہو جاتا ہوں۔ اگر وہ میری طرف چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آجاتا ہوں۔ [1] یہ حدیث اﷲ تعالیٰ کی کئی ایک صفات پر مشتمل ہے اور اﷲ کی صفات دو طرح کی ہیں۔ ثبوتیہ اور سلبیہ۔ صفات ثبوتیہ: سے مراد وہ صفات ہیں جو اﷲ تعالیٰ یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے اپنے لیے ثابت کی ہیں جیسے علم اور قدرت وغیرہ۔ صفات سلبیہ: سے مراد وہ صفات ہیں جن کی اﷲ تعالیٰ نے خود یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ان کی نفی کی ہے جیسے نیند اور تھکاوٹ وغیرہ۔ پھر صفات ثبوتیہ کی دو اقسام ہیں۔ ذاتیہ اور فعلیہ۔ ذاتیہ سے مراد وہ صفات ہیں جن سے اﷲ تعالیٰ ہمیشہ متصف رہتا ہے جیسے صفتِ علو اور صفتِ عظمت وغیرہ۔ فعلیہ سے مراد وہ صفات ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی مشیت سے وابستہ ہیں، اگر چاہے تو انہیں کرے اور اگر نہ چاہے تو نہ کرے جیسا کہ استواء علی العرش اور نزول الی سماء الدنیا۔ آخری قسم کی صفات کو اﷲ تعالیٰ کے لیے اس کے شایان شان ثابت کیا جائے اس میں تمثیل یا تکییف کا شائبہ نہیں ہونا چاہیے۔ حدیث مذکور میں جو صفات ہیں وہ ثبوتیہ فعلیہ ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی مشیت سے متعلق ہیں۔ شیخ محمد بن صالح عثیمین رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں کہ اہل سنت والجماعت اور سلف صالحین اس قسم کی نصوص کو ان کے حقیقی اور ظاہری معنی پر ہی محمول کرتے ہیں اور ان صفات کو اﷲ رب العزت کے شایان شان ثابت کرتے ہیں ان کے لیے کوئی تمثیل یا کیفیت کو متعین نہیں کرتے، اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندے کے قریب ہونے کو بیان کیا گیا ہے۔ وہ اپنے بندے کے جب چاہے جس طرح چاہے قریب ہو سکتا ہے، باوجود اس کے وہ بلند وبالا بھی ہے جیسا کہ اﷲ تعالیٰ کا آسمان دنیا کی طرف نزول اور اپنے عرش پر مستوی ہونا ثابت ہے۔ [2]شیخ عبداﷲ غنیمان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس حدیث میں اﷲ تعالیٰ کا اپنے بندے پر جودوکرم کو بطور تمثیل بیان کیا گیا ہے یعنی اﷲ تعالیٰ اپنے بندے پر بہت جلد متوجہ ہوتا ہے اور اس پر اپنا فضل وکرم کرنے میں جلدی کرتا ہے، باوجودیکہ اس کی عبادت اس کرم وفضل کے مقابلہ میں کچھ بھی حیثیت نہیں رکھتی، وہ اپنے علاوہ ہر چیز سے بے پروا ہے اور اس کے علاوہ ہر چیز اس کی محتاج ہے۔[3] یہ دونوں بزرگ سرزمین عرب کے نامور علماء میں سے ہیں اور ان کی تمام زندگی درس وتدریس میں گزری ہے، موخرالذکر تو سعودی عرب میں ہمارے دوران تعلیم مضمون توحید کے استاذ تھے۔ اﷲ تعالیٰ ان پر کروٹ کروٹ اپنی رحمت فرمائے، اپنی طرف سے کچھ کہنے کی بجائے ہم نے اس حدیث کی وضاحت میں ان کی تشریحات کو ذکر کر دیا ہے۔ (واﷲ اعلم) قطب وابدال کی شرعی حیثیت سوال: قطب وابدال کی شرعی طور پر کیا حیثیت ہے؟ کچھ اہل علم مشکوٰۃ المصابیح کے حوالے سے احادیث پیش کرتے ہیں، جن میں ابدال وغیرہ کا ذکر ہے، کتاب وسنت کی روشنی میں اس کے متعلق ہماری راہنمائی کریں۔
[1] صحیح بخاری، التوحید :7405 [2] القواعد المثلی ،ص :70 [3] شرح کتاب التوحید،صحیح بخاری،ص:271،ج1