کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 285
جواب:قرآن و حدیث کے مطابق جائیداد کی تقسیم کا ایک اصول یہ ہے کہ میت کے ساتھ اگر کسی کا قریبی رشتہ ہے تو اس کی موجودگی میں دور والا رشتہ دار محرم ہوتا ہے مثلاً بیٹے کی موجودگی میں اس کا پوتا اور بیٹی کی موجودگی میں اس کا نواسا وغیرہ محروم ہوتے ہیں، چونکہ صورت مسؤلہ میں میت کے قریبی رشتہ دار بیٹا اور بیٹیاں موجود ہیں اس لیے ان کی موجودگی میں نواسا اور نواسی محروم ہیں، ہاں اگر ان کی والدہ مرحوم کی وفات کے بعد فوت ہوتی تو نواسے اور نواسی کو اپنی ماں کا حصہ ملنا تھا لیکن وہ اپنے باپ کی زندگی میں فوت ہو گئی لہٰذا اسے یا اس کی اولادکو محروم کی جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، سوال سے معلوم ہوتا ہے کہ مرحوم کی وفات کے بعد اس کی بیوی، بیٹا اور بیٹیاں زندہ ہیں، انہیں حسب ذیل تفصیل سے حصہ دیا جائے گا۔ ٭ خاوند اگر صاحب اولاد ہو تو اس کی جائیداد سے ایک بیوی یا متعدد بیویوں کو آٹھواں حصہ ملتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ﴾[1] ’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کے لیے آٹھواں حصہ ہے۔‘‘ ٭ بیوی کو آٹھواں حصہ دینے کے بعد باقی جائیداد اولاد میں اس طرح تقسیم کی جائے کہ بیٹے کو بیٹی کے مقابلہ میں دو گنا حصہ ملے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِۚ﴾[2] ’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق حکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔‘‘ ٭ آسانی کے پیش نظر کل جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں، ان میں سے ایک بیوی کو، دو حصے بیٹے کو اور ایک حصہ ہر بیٹی کو دے دیا جائے، نواسا اور نواسی کو اس جائیداد سے کچھ نہیں ملے گا، اگر مرحوم کی اولاد اپنی طرف سے کچھ دینا چاہیں تو الگ بات ہے۔ (واللہ اعلم) میت کا صرف ایک بھتیجا اور اس کی بہن کی اولاد ہے ترکہ سے انہیں کیا ملے گا؟ سوال:ایک آدمی فوت ہوا ہے اس کے والدین، بہن بھائیوں میں سے کوئی بھی زندہ نہیں، صرف بھائی کا ایک بیٹا اور اس کی بہن کی اولاد بھانجے اور بھانجیوں کی صورت میں موجود ہے کیا اس کے ترکہ میں سے بہن کی اولاد کو کچھ ملے گا یا نہیں؟ جواب:صورت مسؤلہ میں مرنے والے کی کوئی اولاد، والدین اور بہن بھائی نہیں ہیں، صرف ایک بھتیجا اور اس کی بہن کے بچے ہیں، اس صورت میں اس کی جائیداد کا مالک صرف اس کا بھتیجا ہو گا، کیونکہ وہ عصبہ ہے، عصبہ وارث اگر اس کے ساتھ مقررہ حصہ لینے والے موجود ہوں تو مقررہ حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے وہ اسے دیا جاتا ہے اگر مقررہ حصہ لینے والے کوئی نہ ہو تو وہ ساری جائیداد کا مالک ہوتا ہے، اس میں اہل علم کا کوئی اختلاف نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دو، اور جو باقی بچے وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کا ہے۔
[1] ۴/النساء:۱۲۔ [2] ۴/النساء:۱۱۔