کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 284
’’اگر تمہاری اولاد ہے تو بیویوں کو ترکہ سے آٹھواں حصہ دیا جائے۔‘‘ ٭ جو بیوی، خاوند کی وفات سے پہلے فوت ہو چکی ہے، اسے کچھ بھی نہیں ملے گا بلکہ وہ محروم ہے۔ آسانی کے پیش نظر کل جائیداد کے چوبیس حصے کر لیے جائیں، ان میں نصف یعنی بارہ حصے لڑکی کے لیے ہیں اور کل جائیداد کا آٹھواں حصہ یعنی تین حصے اس کی لا ولد بیوی کو دئیے جائیں، بارہ اور تین کے مجموعہ پندرہ کو چوبیس سے منہا کر کے باقی نو حصے بھائی کو مل جائیں گے، اگر میت کے ذمہ قرض ہے یا اس نے وصیت کی ہے تو قرض کی ادائیگی اور وصیت کا اجراء تقسیم سے پہلے ہو گا جب کہ وصیت کسی صورت میں ایک تہائی سے زیادہ نہ ہو، مذکورہ تفصیل کے مطابق جائیداد کو تقسیم کیا جائے۔ (واللہ اعلم) پھوپھی کا حصہ؟ سوال:ایک لڑکی کی شادی اس کے چچا زاد سے ہوئی، عرصہ بیس سال سے کوئی اولاد پیدا نہیں ہوئی، اب وہ فوت ہو گئی ہے اس کے ورثاء میں سے صرف ایک خاوند ہے اور اس کی پھوپھی بھی زندہ ہے، اس صورت میں اس کے ترکہ کا کون حقدار ہو گا، کیا پھوپھی کو کچھ ملے گا یا نہیں؟ جواب:صورت مسؤلہ میں فوت ہونے والی لڑکی لا ولد ہے، اس کا خاوند نصف ترکہ کا حقدار ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ لَكُمْ نِصْفُ مَا تَرَكَ اَزْوَاجُكُمْ اِنْ لَّمْ يَكُنْ لَّهُنَّ وَلَدٌ١ۚ ﴾[1] ’’اور تمہارے لیے نصف ہے اس ترکہ سے جو تمہاری بیویاں چھوڑ جائیں بشرطیکہ ان کی اولاد نہ ہو۔‘‘ خاوند کو نصف دے کر جو باقی بچا ہے اس کاحقدار بھی خاوند ہے کیونکہ وہ اس کا قریبی مذکر رشتہ دار ہے، عصبہ ہونے کی حیثیت سے وہ باقی جائیداد کا حقدار ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’مقرر حصہ حقداروں کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریبی مذکر رشتہ د ار کا ہے۔‘‘ [2] اس صورت میں خاوند نے دو جہتوں سے حصہ لیا ہے ایک جہت مقررہ حصہ لینے کی ہے اور دوسری جہت باقی ماندہ ترکہ لینے کی ہے، کیونکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا قریبی رشتہ دار نہیں ہے، پھوپھی کو کچھ نہیں ملے گا، شریعت میں اس کا کوئی حصہ نہیں لہٰذا وہ محروم ہے، مختصر یہ کہ مرنے والی عورت کا تمام ترکہ خاوند لے گا۔ واللہ اعلم) نواسا، نواسی کا وارث ہونا سوال:ایک آدمی کی زندگی میں اس کی شادی شدہ صاحب اولاد بیٹی فوت ہو گئی، اس کے بعد وہ خود بھی فوت ہو گیا، اس کی پانچ بیٹیاں اور ایک بیٹا زندہ ہے جب کہ فوت شدہ بیٹی کا ایک بیٹا اور بیٹی بھی موجود ہے بیوی بھی حیات ہے، اس صورت میں فوت ہونے والے کی جائیداد کس طرح تقسیم ہو گی؟ اس کا نواسا اور نواسی بھی دعویدار ہیں کہ ہمیں بھی اس جائیداد سے حصہ دیا جائے۔ کتاب و سنت کے مطابق اس کا حل بتائیں۔
[1] ۴/النساء:۱۲۔ [2] صحیح بخاری، الفرائض: ۶۷۷۲۔