کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 281
جواب صورت مسؤلہ میں بیوی کو ۸/۱ ملے گا کیونکہ مرنے والے کی اولاد زندہ ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ ﴾[1] ’’اگر مرنے والے کی اولاد ہو تو بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘ باقی ترکہ اولاد میں اس طرح تقسیم کیا جائے کہ ایک لڑکے کو لڑکی سے دو گنا حصہ ملے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يُوْصِيْكُمُ اللّٰهُ فِيْۤ اَوْلَادِكُمْ١ۗ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَيَيْنِ١ۚ ﴾[2] ’’اللہ تعالیٰ تمہاری اولاد کے متعلق تاکیدی حاکم دیتا ہے کہ مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہو گا۔‘‘ صورت مسؤلہ میں جائیداد کے آٹھ حصے کر لیے جائیں ایک حصہ بیوہ کو اور باقی اولاد میں اس طرح تقسیم کیے جائیں کہ دو حصے ایک لڑکے کو اور ایک حصہ لڑکی کو دیا جائے چنانچہ کل جائیداد اسّی ہزار ہے اور اس کے آٹھ حصے کیے جائیں تو ایک حصہ دس ہزار کا ہو گا۔ بیوہ کو دس ہزار دیا جائے پھر ہر لڑکے کو بیس بیس ہزار روپیہ اور لڑکی کو دس ہزار روپیہ دے دیا جائے۔ بیوی کا حصہ:10000 روپے لڑکی کا حصہ:10000 روپے ہر ایک لڑکے کا حصہ20000 روپے بیوی، بیٹیاں اور بہن وارث ہوں تو اس کے حصص سوال میرے نانا فوت ہو گئے ہیں ان کے پس ماندگان میں سے بیوہ، دو بیٹیاں، ایک حقیقی بھائی، ایک حقیقی بہن زندہ ہیں، ان ورثاء میں ان کی وراثت کس طرح تقسیم ہو گی؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب سے مطلع فرمائیں۔ جواب بشرط صحت سوال واضح ہو کہ صورت مسؤلہ میں بیوہ کے لیے کل جائیداد کا آٹھواں حصہ ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كَانَ لَكُمْ وَلَدٌ فَلَهُنَّ الثُّمُنُ ﴾ [3] ’’اور اگر اولاد ہے تو پھر ان بیویوں کا آٹھواں حصہ ہے۔‘‘ دو بیٹیوں کو کل جائیداد سے دو تہائی ملے گا، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ ﴾[4] ’’اور اگر لڑکیاں (دو یا) دو سے زائد ہوں تو ان کو ترکہ سے دو تہائی حصہ ملے گا۔‘‘ مقررہ حصہ لینے والوں کو ان کا حصہ دینے کے بعد جو باقی بچے گا وہ میت کے مذکر قریبی رشتہ دار کے لیے ہے جیسا کہ رسول
[1] ۴/النساء:۱۲۔ [2] ۴/النساء:۱۱۔ [3] ۴/النساء:۱۲۔ [4] ۴/النساء:۱۱۔