کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 276
جانور ہے تو چارہ وغیرہ ڈالنے کے عوض اس پر سواری کر لی جائے۔ دور حاضر میں اگر کسی نے گاڑی گروی رکھی ہے تو اپنا پٹرول ڈال کر اس پر سفر کیا جا سکتا ہے لیکن گروی میں زمین لے کر اسے کاشت کرنا اور پیداوار اٹھانا یا مکان کے عوض خود رہائش رکھنا یا کسی کو کرایہ پر دے کر خود کرایہ وصول کرنا جائز نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں جس شخص کا مکان ہے وہ خود ہی کرایہ دار کی حیثیت سے اس مکان میں رہائش رکھے ہوئے ہیں، ایسا کرنا جائز نہیں ہے، اگر اس کے کرایہ کو اصل قرض سے منہا کر دیا جائے تو جائز ہے۔ اسی طرح زمین کی پیداوار کو بقدر حصہ اگر قرض سے منہا ادا کر دیا جائے تو گروی شدہ زمین کو کاشت کیا جا سکتا ہے بصورت دیگر گروی چیز سے کسی قسم کا فائدہ اٹھانا شرعاً جائز نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) سوال:میرے والد گرامی جیل میں ہیں، ان کی رہائی کے لیے ایک لاکھ روپیہ درکار ہے اگر یہ رقم نہیں دی جاتی تو مزید دو سال قید بڑھ سکتی ہے، میرے پاس اتنی رقم نہیں ہے اور مجھے کوئی قرض بھی نہیں دیتا، ایک شخص اس شرط پر قرض دینے کے لیے تیار ہے کہ تین سال کے بعد اسے دو لاکھ روپے واپس کیے جائیں، کیا اس قسم کی مجبوری کے پیش نظر سود پر قرض لیا جا سکتا ہے؟ جواب:سودی کاروبار یا لین دین اس قدر سنگین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایسے کام کرنے والے کو سخت وارنگ دی ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ١ۚ ﴾[1] ’’اگر تم اس (سودی لین دین) سے باز نہیں آؤ گے تو پھر اللہ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔‘‘ اور احادیث میں سود لینے اور دینے کو اپنی ماں کے ساتھ منہ کالا کرنے کے مترادف قرار دیا گیا ہے، لہٰذا ایک مسلمان کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ اسے کسی صورت میں اختیار نہ کرے، صورت مسؤلہ میں کوئی ایسا عذر نہیں جس کی بنیاد پر سود پر قرض لینے کو جائز قرار دیا جائے، جان بچانے کے لیے مردار کھانے کی اجازت قرآن نے دی ہے، لیکن صورت مسؤلہ کو اس پر قیاس نہیں کیا جا سکتا۔ ہمارے رجحان کے مطابق کسی مالدار سے قرض لے کر اپنے باپ کو رہائی دلائی جا سکتی ہے لیکن اس رہائی کے لیے سود پر قرض لینا شرعاً درست نہیں ہے، ایسی صورت میں بہتر یہی ہے کہ دو سال تک مزید قید برداشت کر لی جائے لیکن اس حرام کا ارتکاب نہ کیا جائے۔ (واللہ اعلم) شفعہ کا حق دارکون ہے؟ سوال کیا شفعہ صرف زمین یا مکان میں ہوتا ہے؟ نیز شفعہ کا حقدار کون ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ جواب شریک کے اس حصے کو مقررہ معاوضہ کے بدلے شریک کی طرف منتقل کرنا جو اجنبی کی طرف منتقل ہو گیا تھا، شفعہ کہلاتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر اس چیز میں شفعہ کا فیصلہ دیا ہے جو تقسیم نہ ہوئی ہو۔ [2]
[1] ۲/البقرۃ:۲۷۹۔ [2] صحیح بخاری، الشفعہ: ۵۲۲۔