کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 272
جاتا ہے پھر اس سود کو ایک خاص شرح سے اصل مالک کے کھاتے میں جمع کر دیا جاتا ہے، اگرچہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کھاتے میں جمع شدہ رقم کو کاروبار میں لگایا جاتا ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر کی حیثیت ایک شریک کی ہوتی ہے لیکن زمینی حقائق اس دعویٰ کے منافی ہیں، کیونکہ اس میں سودی رقم کو مارک اپ جیسے َحسین الفاظ کا نام دیا گیا ہے، بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق سیونگ کھاتے میں رکھی ہوئی رقم پر ملنے والا ’’منافع‘‘ سود ہی ہے، ایک مسلمان کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اگر حکومت واقعی سودی نظام ختم کرنا چاہتی ہے تو نیک نیتی کے ساتھ اس پورے نظام کو بدلنے کا تہیہ کرے جو خالص سود پر مبنی ہے تاکہ مسلمان پوری یکسوئی کے ساتھ غیرسودی بینکاری کو کامیاب بنانے میں حصہ لیں، اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی وناصر ہو۔ (آمین)
قبضہ کیے بغیر چیز آگے بیچنا
سوال:منڈیوں میں خریدوفروخت کی اکثر یہ صورت سامنے آتی ہے کہ آدمی کوئی چیز خریدتا ہے اور اسے مالک کے پاس ہی چھوڑ دیتا ہے، اسی حالت میں اس کو آگے فروخت کر دیا جاتا ہے، کیا اس طرح خریدوفروخت کرنا جائز ہے، اگر ناجائز ہے توکیوں؟
جواب: تمام فقہاء عظام کا اس امر پر اتفاق ہے کہ کسی چیز کو خریدنے کے بعد اس پرقبضہ کرنے سے پہلے پہلے اسے فروخت کرنا ناجائز ہے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے: ’’جس نے اناج خریدا وہ اس وقت تک فروخت نہ کرے جب تک اسے ناپ تول کر پورا نہ کر لے۔‘‘ [1]
ایک روایت میں وضاحت ہے کہ اسے اپنے قبضے میں لیے بغیر آگے فروخت نہ کرے۔[2] اس حدیث میں اناج اور غلے کا حکم بیان ہوا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ کھانے کی اشیاء کے علاوہ ہر چیز کا یہی حکم ہے۔[3] بلکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح طور پر فرمایا ہے:
’’تم جب بھی کوئی چیز خریدو تو اس پر قبضہ کیے بغیر آگے فروخت نہ کرو۔‘‘ [4]
امام ابو داؤد رحمۃ اللہ علیہ نے اس روایت کو بایں الفاظ بیان کیا ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جگہ میں جہاں سے سامان خریدا ہے وہیں پر بیچنے سے منع فرمایا ہے، یہاں تک کہ تاجر حضرات اپنا سودا اٹھا کر اپنے اپنے گھروں میں لے جائیں۔ [5] امام ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں: ’’خریدی ہوئی چیز کو قبضے میں لینے سے پہلے فروخت کرنے کی ممانعت اس لیے ہے کہ خریدار ایسی صورت میں اسے قبضے میں لینے سے عاجز ہوتا ہے، ممکن ہے فروخت کنندہ اس چیز کو اس کے حوالے کرے یا نہ کرے، خاص طور پر جب وہ دیکھ رہا ہو کہ خریدار کو اس سے بہت نفع ہو رہا ہے تو وہ اس بیع کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا، خواہ انکار کرے یا فسخ بیع کے لیے کوئی حیلہ تلاش کرے۔‘‘ [6]
بہرحال آج کل منڈیوں میں جس طرح خریدوفروخت ہوتی ہے کہ ایک چیز خرید کر وہیں اسے آگے فروخت کر دیا جاتاہے،
[1] بخاری، البیوع: ۲۱۲۶۔
[2] مسلم، البیوع: ۱۵۲۵۔
[3] جامع ترمذی، البیوع: ۱۲۹۱۔
[4] مسند امام احمد، ص: ۴۰۲، ج۲۔
[5] ابو داود، البیوع: ۳۴۹۸۔
[6] اعلام الموقعین، ص؛ ۱۳۴، ج۳۔