کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 27
بہرحال تقدیر کا موضوع ایسا سمندر ہے جس کی گہرائی کوئی بندہ بشر معلوم نہیں کر سکا اس لیے تقدیر کے معاملہ میں پرہیز اور خاموشی اختیار کرنی چاہیے۔ (واﷲ اعلم)
قبر پر فی سبیل اللہ خیرات کرنا
سوال: ہمارے ہاں ایک بزرگ کی قبر پر سالانہ میلہ لگتا ہے، وہاں دور، دور سے لوگ آتے ہیں، میرے والد وہاں باہر سے آنے والے لوگوں کے لیے کھانے کا انتظام کرتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ میں فی سبیل اﷲ خیرات کرتا ہوں، کیا ایسے مقام پر خیرات وغیرہ کی جا سکتی ہے؟
جواب: جس مقام پر غیراﷲ کے نام پر نذریں پوری کی جاتی ہوں یا منتیں مانی جاتی ہوں وہاں اﷲ کے نام پر دینا بھی منع ہے جیسا کہ حضرت ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں ایک شخص نے مقام بوانہ میں اونٹ ذبح کرنے کی اجازت طلب کی تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے دریافت کیا۔ ’’کیا وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت تھا جس کی پوجا کی جاتی تھی؟ اس نے جواب دیا کہ وہاں زمانہ جاہلیت کے بتوں میں سے کوئی بت نہیں جس کی پوجا پاٹ کی جاتی ہو تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرا سوال کیا: ’’کیا وہاں زمانہ جاہلیت میں کوئی میلہ لگتا تھا؟ اس نے جواب دیا کہ وہاں زمانہ جاہلیت میں کسی میلہ کا اہتمام نہیں کیا جاتا تھا، تب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جاؤ، اپنی نذر کو پورا کر لو اور اونٹ ذبح کرو البتہ ایسی نذر کو پورا نہیں کرنا چاہیے جس میں اﷲ کی نافرمانی ہو۔‘‘ [1]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ایسی جگہ پر ذبح کرنا حرام ہے، جہاں زمانہ جاہلیت میں کسی بت کی تعظیم کی جاتی تھی یا وہاں اہل جاہلیت کا کوئی میلہ لگتا تھا لیکن جہاں عملی طور پر غیراﷲ سے مانگا جاتا ہو، وہاں غیراﷲ کی نذریں نیازیں چلتی ہوں اور غیراﷲ کے نام پر میلہ لگایا جاتا ہو، وہاں صدقہ خیرات اور ذبح کرنا بالاولیٰ ناجائز اور حرام ہے، اگرچہ ذبح کرنے والے اور صدقہ وخیرات دینے والے کا مقصود رضائے الٰہی کا حصول ہی کیوں نہ ہو۔ (واﷲ اعلم)
دعا کا مبدل تقدیر ہونا
سوال: ہمارے مقدر میں جو لکھا ہے کہ وہ ہر صورت مل کر رہے گا، اور جو ہمارے مقدر میں نہیں لکھا گیا وہ ہمیں کسی صورت میں نہیں مل سکتا۔ ایسے حالات میں دعا کرنے کا کیا فائدہ ہے اور یہ کیا کردار ادا کرتی ہے؟ کتاب وسنت کی روشنی میں اس الجھن کو حل کریں۔
جواب دین سلام کے ارکان وشعار کے متعلق اس قسم کے اعتراضات پہلے بھی ہوئے ہیں اور ہمارے اسلاف نے ان اعتراضات کے جوابات بھی دئیے ہیں، اس کے متعلق صحیح جواب یہ ہے کہ دنیا میں معاملات کا وقوع پذیر ہونا اسباب کے ساتھ معلق کیا گیاہے جیسا کہ اگر کسی بیج کے متعلق یہ مقدر ہے کہ اس نے اگنا اور پھلنا پھولنا ہے تو اس کی یہ تقدیر اسباب وذرائع کے بجالانے
[1] ابوداؤد،الایمان:3313۔