کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 269
وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے کہ ایک عورت نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے عرض کیا کہ میں نے آٹھ سو درہم ادھار کے عوض زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے ایک غلام کی بیع کی، پھر میں نے اس غلام کو چھ سو درہم نقد کے بدلے خرید لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا تم نے بہت بری خریدوفروخت کی ہے۔[1]
یہ اس لیے حرام ہے کہ چھ صد درہم نقد دے کر ادھار آٹھ سو درہم لیتا ہے، خریدوفروخت کردہ چیز بعینہ درمیان میں رکھ دی گئی ہے، اس صورت مسؤلہ میں اگر کسی چیز کو نقد پچاس ہزار میں خریدا ہے اور ادھار ستر ہزار میں فروخت کر دیا ہے تو شرعاً اس میں کوئی قباحت نہیں ہے، کیونکہ یہ ایک کاروبار ہے جس کی بنیاد اباحت پر ہے الا یہ کہ اس کے حرام ہونے کی واضح دلیل ہو، واضح رہے کہ اس موضوع پر ہمارا تفصیلی فتویٰ اہلحدیث میں شائع ہو چکا ہے جسے فتاویٰ اصحاب الحدیث میں پڑھا جا سکتا ہے۔ جو مکتبہ اسلامیہ فیصل آباد۔ لاہور سے دستیاب ہے۔ (واﷲ اعلم)
غیر مملوکہ چیز فروخت کرنا
سوال: آج کل ہماری منڈیوں میں یہ سودے عام ہوتے ہیں کہ ان کے پاس مال نہیں ہوتا، اس کے باوجود خریدوفروخت ہوتی رہتی ہے اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
جواب جو چیز انسان کی ملکیت میں نہ ہو اسے آگے فروخت کرنا جائز نہیں ہے، حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ نے ایک دفعہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا تھا یا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! ایک شخص میرے پاس آتا ہے اور مجھ سے کسی چیز کا سودا کر لیتا ہے جبکہ وہ چیز اس وقت میرے پاس نہیں ہوتی، میں اسے بازار سے لا کر دے دیتا ہوں تو کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو چیز تمہارے پاس نہیں تم اسے فروخت کرنے کے مجاز نہیں ہو۔‘‘ [2]
ایک دوسری روایت میں ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو چیز تیرے پاس نہیں ہے اس کا فروخت کرنا جائز نہیں ہے۔ [3]
ان احادیث سے معلوم ہوا کہ منڈیوں میں اس طرح کا جو کاروبار ہوتا ہے وہ جائز نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم)
گروی چیز کو اپنے استعمال میں لانا؟
سوال میں نے کسی سے قرض وصول کرنا ہے، اس نے میرے پاس اپنا مکان رکھا ہے جس کی مالیت تقریباً دس لاکھ ہے، جبکہ قرض پانچ لاکھ ہے، کیا میں اس گروی شدہ مکان کو اپنے استعمال میں لا سکتا ہوں؟
جواب اگر گروی رکھی جانے والی چیز خرچے وغیرہ کی محتاج نہیں ہے تو کسی حالت میں اس سے فائدہ حاصل نہیں کیا جا سکتا اور اگر وہ ایسی چیز ہے جو خرچے کی محتاج ہے تو خرچ کے عوض اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رہن رکھے ہوئے جانور پر اخراجات کے عوض سواری کی جا سکتی ہے اور دودھ دینے والے جانور کا دودھ بھی پیا جا سکتا ہے اور جو شخص
[1] بیہقی، ص: ۳۳۰، ج۵۔
[2] مسند امام احمد، ص: ۴۰۲، ج۳۔
[3] مستدرک حاکم، ص: ۱۷، ج۲۔