کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 268
ہیں، اس کے جواز میں کوئی شک نہیں ہے، لیکن صورت مسؤلہ میں کاروبار کی جو صورت بیان کی گئی ہے اس میں اور بینک کے سود میں کوئی فرق نہیں ہے کیونکہ بینک صارفین کورقم جمع کرانے کے بعد ایک طے شدہ شرح کے مطابق سود دیتا ہے جسے وہ منافع کا نام دیتے ہیں۔ کسی چیز کا نام بدل دینے سے اس کی حقیقت نہیں بدل جاتی، جس آدمی نے رقم فراہم کی ہے اسے چاہیے کہ کاروبار کے نفع اور نقصان میں برابر کا شریک ہو لیکن دی ہوئی رقم پر ایک خاص شرح کے مطابق ’’نفع‘‘ لینا خالص سود ہے۔ مثلاً اگر اس نے مبلغ پچاس ہزار روپیہ دیا ہے اور طے پایا ہے کہ چھ ماہ بعد اس رقم پر پانچ فیصد ’’نفع‘‘ دیا جائے گا، اس طرح چھ ماہ بعد پچاس ہزار کے ساتھ پانچ ہزار مزید شامل ہو جائے گا، اب اس کاروبار میں اوربینک کے سود میں کیا فرق ہے؟ ہمارے نزدیک اس انداز سے اپنی رقم پر خاص شرح فی صد کے اعتبار سے نفع لینا خالص سود ہے جسے اﷲ تعالیٰ نے حرام کہا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’اﷲ تعالیٰ نے خریدوفروخت کو حلال اور سود کو حرام کہا ہے۔‘‘[1]نیز فرمایا: ’’اگر تم اس کاروبار سے باز نہیں آؤ گے تو اﷲ اور اس کے رسول کے خلاف جنگ کرنے کے لیے تیار ہو جاؤ۔ اور اگر اس سے توبہ کر لو تو تم صرف اپنے اصل زر کے حقدار ہو۔‘‘[2]بہرحال تجارت اور سود میں بہت فرق ہے، دوچیزیں تو بہت نمایاں ہیں۔ 1) سود میں طے شدہ شرح کے مطابق منافع یقینی ہوتا ہے جبکہ تجارت میں نفع کے ساتھ نقصان کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ 2) مضاربت کی شکل میں فریقین کو ایک دوسرے سے ہمدردی پیدا ہوتی ہے کیونکہ اس میں مفاد مشترکہ ہوتا ہے جبکہ تجارتی سود میں سود خور کو محض اپنے مفاد سے غرض ہوتی ہے۔ صورت مسؤلہ میں طے شدہ شرح کے مطابق نفع لینا صریح سود ہے ایک مسلمان شخص کو اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ مقررہ وقت تک ادھار دینا سوال:میں نے ایک موٹر سائیکل نقد قیمت پر مبلغ پچاس ہزار روپے میں خریدی۔ پھر میں نے اسے چھ ماہ کے ادھار پر مبلغ ستر ہزار روپے میں فروخت کر دیاہے، اس کے متعلق بتائیں کہ ایسا کرنا جائز ہے؟ بعض لوگ اسے سود کہتے ہیں۔ جواب: معاملات میں اصل اباحت ہے الا یہ کہ اس کی حرمت پر واضح نص آجائے اور عبادات میں اصل حرمت ہے الا یہ کہ اس کے جواز پر واضح دلیل موجود ہو، اس اصل کی بنیاد پر ادھار کی وجہ سے قیمت زیادہ کرنے میں کوئی قباحت نہیں ہے، اس کے عدم جواز پر ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو ایک بیع میں دو بیع کرتا ہے، اس کے لیے دونوں میں سے کم قیمت ہے یا پھروہ سود ہے۔[3] حالانکہ اس صورت میں بھاؤ دو ہوتے ہیں، بیع نہیں کی جاتی ہے کہ موجودہ صورت کو حرام قرار دیا جائے۔ ہمارے نزدیک موجودہ حدیث کا مصداق بیع عینہ ہے جس کی حرمت دیگر دلائل سے ثابت ہے۔ بیع عینہ یہ ہے کہ آدمی کوئی چیز مقررہ قیمت پر معین وقت تک کے لیے فروخت کرے، پھر خریدار سے وہی چیز کم قیمت پر خرید لے کہ زائد رقم اس کے ذمے رہ جائے۔ اس کی مزید
[1] ۲/البقرہ: ۲۷۵۔ [2] ۲/البقرۃ: ۲۷۹۔ [3] ابو داود، البیوع: ۳۴۶۱۔