کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 266
میں سود کھائیں گے، عرض کیا گیا سب کے سب اس بیماری میں مبتلا ہو جائیں گے فرمایا کہ جو نہیں کھائے گا اسے بھی سود کی گردوغبار پہنچ جائے گی۔‘‘ [1] اس حدیث کے پیش نظر دورحاضر میں کوئی بھی اس وبائی مرض سے محفوظ نہیں ہے، کسی نہ کسی حوالہ سے سود سے اجتناب کرنے والے کو بھی اس کی گردوغبار سے ضرور واسطہ پڑ جاتا ہے، ہمارے نزدیک صورت مسؤلہ میں بھی اس قسم کا معاملہ ہے کیونکہ کرایہ وغیرہ کی رقم اس سودی کاروبار کی پیداوار ہو گی، جس پر بینک کے معاملات کی بنیاد کھڑی ہے، یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ کوئی بینک بھی سودی معاملات سے محفوظ نہیں ہے خواہ وہ اپنے نام کے ساتھ ’’اسلامی‘‘ ہونے کا لیبل ہی کیوں نہ لگا لے، کیونکہ پاکستان میں جتنے بینک ہیں یہ حکومتی بینک (اسٹیٹ بینک) کے ماتحت ہوتے ہیں اور حکومتی بینک سے انہیں کاروبار اور لین دین کرنا پڑتا ہے، اسے بھاری رقوم بھی پرکشش شرح سود پر دی جاتی ہیں، پھر حکومتی بینک کا تعلق ورلڈ (عالمی) بینک سے ہوتا ہے، حکومتی بینک، ورلڈ بینک کے ماتحت ہوتے ہیں اور اسے بھاری سرمایہ بھاری شرح سود پر فراہم کرتے ہیں، اس طرح ورلڈ بینک سے جو سود ملتا ہے وہ حصہ رسدی کے طور پر پاکستان کے تمام بینکوں کو پہنچ جاتا ہے، بینک کے معاملات کی یہ مختصر وضاحت ہے، ایسے بینکوں کو سودی کاروبار کے لیے جگہ فراہم کرنا کہ وہ خود عمارت تعمیر کر لیں یا انہیں عمارت بنا کر کرایہ پر دینا شرعاً جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنا ان کے حرام کاروبار میں ان کی معاونت کرنا ہے جبکہ اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ١۪ وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ١۪ ﴾[2] ’’تم نیکی اور پرہیزگاری کے کاموںمیں ایک دوسرے سے تعاون کرو اور سرکشی کے کاموں میں تعاون نہ کرو۔‘‘ اس آیت کریمہ کی روشنی میں مسلم یا غیر مسلم اگر وہ نیکی اور تقویٰ کا کام کرتا ہے تو اس کا ساتھ دینا چاہیے اور اگر گناہ کا کام خواہ کوئی مسلمان کر رہا ہو اس سے کسی قسم کا تعاون نہیں کرنا چاہیے۔ ہمارے نزدیک عمارت تعمیرکر کے سودی کاروبار کرنے والے ادارے کو کرایہ پر دینا ایسا ہی جیسا کہ وہ عمارت کسی بدکاری کا اڈہ چلانے یا شراب کشید کرنے کے لیے کرایہ پر دی ہے، ایسا کرنا ایک مسلمان کے شایان شان نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) زمیندار کا آڑ ھتی سے فصل سے پہلے رقم لینا سوال: ہمارے ہاں آڑھتی حضرات کا یہ طریقہ ہے کہ زمیندار حضرات ان سے رقم لے لیتے ہیں اور فصل کے موقع پر انہیں پیداوار دینے کا وعدہ کرتے ہیں، اس طرح آڑھتی حضرات ایک لاکھ روپے دے کر تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپیہ کما لیتے ہیں۔ کیا ایسا کرنا شرعاً جائز ہے؟ کتاب وسنت کا حوالہ دیں۔ جواب :کسی چیز کی آیندہ ادائیگی کے وعدے پر اس کی نقد قیمت وصول کرنا جائز ہے۔ شرعی طور پر اسے بیع سلم یا بیع سلف کہا جاتاہے، اس طرح کی خریدوفروخت جائز ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اس طرح کی خریدوفروخت ہوا کرتی تھی، خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہے لیکن اس کی چند ایک شرائط ہیں۔ جو چیز بطور قیمت ادا کی جا رہی ہے اس کی مقدار
[1] مسند امام احمد، ص؛ ۴۹۴، ج۲ [2] ۵/المائدہ: ۲۔