کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 262
فٹ کی بلندی پر جا کر اگر چاند دیکھ لیں تو نماز عید ایک دن ادا کی جا سکتی ہے، قرآن و حدیث کے مطابق کیا ایسا کرنا درست ہے؟ جواب:ہمارے رجحان کے مطابق یہ فارمولہ محض تکلف ہے کیونکہ سحری و افطاری اور عید کا اہتمام زمین کے لحاظ سے ہونا چاہیے، بیس ہزار فٹ کی بلندی پر جا کر چاند دیکھنا اور پھر اسے عید الفطر کے لیے وجہ جواز قرار دینا صحیح نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے افطاری کے متعلق فرمایا ہے: ’’جب تم دیکھو کہ رات ادھر سے آگئی ہے تو روزہ دار اپنا روزہ افطار کرے۔‘‘[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذکورہ ارشاد زمین کے اعتبار سے ہے، بصورت دیگر اگر جہاز پر بیٹھ کر انسان بیس ہزار فٹ کی بلندی پر جائے تو وہاںاسے سورج نظر آجائے گا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اسے روزہ افطار نہیں کرنا چاہیے، حالانکہ ایسا کرنا عقل و نقل کے خلاف ہے، اس طرح چاند مطلع پر موجود رہتا ہے لیکن زمین کے اعتبار سے اس کا طلوع غروب ملحوظ رکھنا ہو گا۔ اتنی بلندی پر جا کر چاند دریافت کرنا شریعت کے منشا کے خلاف ہے، اس بنا پر مذکورہ فارمولا صحیح نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) ایّام کی حالت کے روزے مسلسل یا متفرق رکھیں سوال:ایام کی حالت میں جو روزے رہ جائیں، انہیں رمضان کے بعد کس حد تک مؤخر کیا جا سکتا ہے؟ کیا انہیں مسلسل رکھنا ہوتا ہے یا متفرق طور پر بھی رکھے جا سکتے ہیں؟ قرآن و حدیث میں ان کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ جواب:ایام کے دوران جو روزے رہ جائیں ان کی قضا ضروری ہے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: ہمیں روزوں کی قضاء کا حکم دیا جاتا تھا اور نماز کی قضاء کا حکم نہیں دیا جاتا تھا۔ [2] اگر روزے کے دوران حیض شروع ہو جائے تو اس سے بھی روزہ ختم ہو جاتا ہے، جس کی قضاء بعد میں دینا ہو گی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کیا ایسا نہیں ہے کہ جب عورت حائضہ ہوتی ہے تو نہ نماز پڑھتی ہے اور نہ روزہ رکھتی ہے۔‘‘ [3] قضاء شدہ روزوں کے متعلق بہتر ہے کہ انہیں آیندہ رمضان سے پہلے پہلے پورا کر لیا جائے جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ میرے ذمہ رمضان کے روزے ہوتے تھے تو میں ماہ شعبان کے علاوہ ان کی قضاء کے متعلق طاقت نہ رکھتی تھی۔[4]راوی حدیث نے اس کی وجہ بایں الفاظ بیان کی ہے: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مصروفیت کی وجہ سے ایسا نہ کر پاتی تھی۔[5] ہمارے رجحان کے مطابق حق بات یہ ہے کہ اگر استطاعت ہو تو جلدی قضا دینا ضروری ہے کیونکہ زندگی کے ایام مستعار ہیں، ان کے ختم ہونے کا علم نہیں، اس لیے اس قسم کا قرض چکانے میں جلدی کرنی چاہیے، نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ سَارِعُوْۤا اِلٰى مَغْفِرَةٍ مِّنْ رَّبِّكُمْ ﴾[6] ’’اپنے رب کی مغفرت کی طرف جلدی کرو۔‘‘ قضا شدہ روزوں کو مسلسل رکھنا ضروری نہیں بلکہ انہیں متفرق طور پر بھی رکھا جا سکتا ہے جیساکہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۴۱۔ [2] صحیح مسلم، الحیض: ۳۳۵۔ [3] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۱۔ [4] مسند امام احمد،ص۱۲۴،ج:۶۔ [5] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۰۔ [6] ۳/آل عمران: ۱۳۳۔