کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 260
وضاحت موجود ہے؟ جواب:شک کے دن روزہ سے مراد شعبان کی تیسویں کا روزہ رکھنا ہے، جب شعبان کی انتیس تاریخ کو مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آسکے اور شک پڑ جائے کہ آیا رمضان ہے یا نہیں؟ اس شک کو بنیاد بنا کر اگلے دن تیسویں شعبان کا روزہ رکھنا شک کے دن کا روزہ رکھنا ہے۔ اس کی حدیث میں سخت ممانعت ہے۔ چنانچہ حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ جس نے مشکوک دن کا روزہ رکھا اس نے ابو القاسم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔ [1] اس بنا پر اگر انتیس شعبان کو مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہ آئے تو شعبان کے تیس دن پورے کر لیے جائیں جیسا کہ حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’چاند دیکھ کر روزہ رکھو اور چاند دیکھ کر ہی عید الفطر کرو، اگر مطلع ابر آلود ہونے کی وجہ سے چاند چھپ جائے تو شعبان کے تیس دن پورے کر لو۔ [2] اسی طرح حدیث میں وصال کے روزے سے ممانعت ہے چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال سے منع فرمایا ہے۔ [3] ایک دوسری روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ممانعت کی وجہ بایں الفاظ بیان فرمائی ہے: ’’یہ عمل تو عیسائی کرتے ہیں۔‘‘ [4] وصال یہ ہے کہ آدمی ارادی طور پر دو یا اس سے زیادہ دن تک روزہ افطار نہ کرے، مسلسل روزہ رکھے نہ رات کو کچھ کھائے اور نہ سحری کرے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود وصال کیا کرتے تھے اور یہ عمل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے خصوصیت کا حامل ہے جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضاحت فرمائی ہے: ’’تم میں میرے جیسا کون ہے؟ میں تو اس حالت میں رات گزارتا ہوں کہ میرا پروردگار مجھے کھلاتا پلاتا ہے۔‘‘ [5] بہرحال احادیث میں شک کے دن روزہ رکھنے اور وصال کرنے کی سخت ممانعت ہے، ایک مسلمان اطاعت گزار کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم) روزے کو باطل کرنے والے امور سوال:کیا روزہ رکھنے کے بعد کسی کی غیبت یا دیگر حرام گفتگو سے روزہ باطل ہو جاتا ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا ہدایات ہیں؟ جواب:قرآن کریم نے روزے کا مقصد حصول تقویٰ قرار دیا ہے اور تقویٰ کا معنی اللہ کی طرف سے حرام کردہ امور کو ترک کرنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جو شخص روزہ کی حالت میں جھوٹی بات اور اس پر عمل کو ترک نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کو اس کے روزے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کہ وہ اپنا کھانا پینا ترک کرے۔‘‘ [6] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ روزہ دار کو حرام اقوال و اعمال سے اجتناب کرنا چاہیے، ان کے متعلق بہت سخت وعید ہے، اسے
[1] مسند امام احمد، ص: ۴۱۵، ج۲۔ [2] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۰۹۔ [3] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۶۲۔ [4] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۶۱۔ [5] بخاری، الصوم: ۱۹۶۵۔ [6] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۰۳۔