کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 256
روزے دار کا بھول کر کھانا پینا سوال کیا بھول کر کھانے پینے سے روزہ خراب ہو جاتا ہے، کتاب و سنت کی روشنی میں اس مسئلہ کی وضاحت کریں؟ جواب طلوع فجر سے غروب آفتاب تک دانستہ کھانے پینے اور تعلقات زن و شوئی سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جب کہ بھول کر کھانے پینے سے روزہ خراب نہیں ہوتا، چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو روزہ دار بھول کر کچھ کھا پی لے تو اسے چاہیے کہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ تعالیٰ نے کھلایا پلایا ہے۔‘‘ [1] ایک روایت میں ہے کہ یہ ایسا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ نے اسے پہنچایا ہے۔ [2] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر کوئی بھول کر رمضان میں روزہ کھول لے تو اس پر کسی قسم کی قضا یا کفارہ نہیں ہے۔‘‘[3] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اگر بھول کر کوئی ایسا عمل کر لیا جائے جو روزہ کو باطل کر دینے والا ہے تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا اور نہ ہی قضا یا کفارہ واجب ہوتا ہے، البتہ دانستہ ایسا کام کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتاہے۔ (واللہ اعلم) دیر سے روزہ افطار کرنا سوال کچھ لوگ احتیاط کے طور پر سورج غروب ہونے کے بعد چند منٹ تاخیر سے روزہ افطار کرتے ہیں اس قسم کی احتیاط کا شرعاً کیا حکم ہے؟ جواب سورج غروب ہونے کے بعد روزہ جلدی افطار کرنا ایک پسندیدہ عمل ہے ایسی حالت میں احتیاط کرنے کی چنداں ضرورت نہیں ہے، حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ جب تک افطار کرنے میں جلدی کریں گے ہمیشہ خیر و عافیت سے رہیں گے۔‘‘ [4] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں یہ عمل ایک دوسرے انداز سے بیان ہوا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’لوگ روزہ افطار کرنے میں جب تک جلدی کرتے رہیں گے دین ہمیشہ غالب رہے گا کیونکہ یہودی اور عیسائی روزہ تاخیر سے افطار کرتے ہیں۔‘‘ [5] ان احادیث کے پیش نظر سورج غروب ہونے کے بعد روزہ جلدی افطار کرنا چاہیے، مزید احتیاط کی شرعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) بحالتِ روزہ آنکھ میں دوائی ڈالنا سوال روزہ کی حالت میں آنکھ میں دوائی ڈالنا یا سرمہ لگانا کیا حکم رکھتا ہے؟ اس سلسلہ میں ایک روایت بیان کی جاتی ہے کہ روزہ دارکو سرمہ نہیں لگانا چاہے، اس کی کیا حیثیت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۳۳۔ [2] ترمذی، الصوم: ۷۱۷۔ [3] مستدرک حاکم،ص:۴۳۰،ج۱۔ [4] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۷۔ [5] ابوداود، الصوم: ۲۳۵۳۔