کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 250
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ سے نو محرم کے روزہ کی دو وجوہ لکھی ہیں۔
1) احتیاط کے پیش نظر نویں کا روزہ بھی رکھ لیا جائے کیونکہ چاند دیکھنے میں غلطی لگ سکتی ہے، دس کو نو سمجھا جا سکتا ہے اس لیے بہتر ہے کہ دس محرم کے ساتھ نو کا روزہ بھی رکھ لیا جائے۔
2) یہود و نصاریٰ کی مخالفت کے پیش نظر کیونکہ وہ صرف ایک دن کا روزہ رکھتے تھے، پہلے معنی کی تائید حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خود اپنے عمل سے ہوتی ہے آپ دو دن کا متواتر روزہ رکھتے تھے۔ مبادا عاشورہ کا روزہ رہ جائے اور دوسرے معنی کی تائید امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی روایت سے ہوتی ہے، اس میں ہے کہ نو اور دس کا روزہ رکھو اور یہود کی مشابہت سے احتراز کرو۔[1]
ہمارے رجحان کے مطابق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا عقیدہ یہ تھا کہ جو انسان عاشورا کا روزہ رکھنا چاہتا ہے وہ نویں محرم سے ابتداء کرے اور دس محرم کا اس کے ساتھ روزہ رکھے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی موقوف اور مرفوع روایات اسی بات پر دلالت کرتی ہیں، اس قدر جلیل القدر ائمہ کی تصریحات کے بعد اس مسئلہ میں کوئی شک نہیں رہتا کہ نو محرم کو عاشورا قرار دینا کسی صورت میں صحیح نہیں ہے نیز حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے ذاتی فتویٰ، ان کے عمل اور مرفوع روایات میں کوئی تعارض یا تضاد نہیں ہے ان حضرات پر اعتراض کر کے اپنے لیے ایک الگ راستہ اختیار کرنا غیر سبیل المومنین ہے جس کی قرآن اجازت نہیں دیتا، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق پر چلنے اور اسے بطور منہج اختیار کرنے کی توفیق دے۔ (آمین)
نذر کا روزہ رکھنے کا اُصول
سوال:میری بہن نے نذر مانی تھی کہ اگر والدہ صحت یاب ہو گئی تو وہ ایک ہفتہ کے روزے رکھے گی، اللہ تعالیٰ نے میری والدہ کی صحت سے نوازا، لیکن میری بہن نے نذر کے روزے نہیں رکھے، اب وہ فوت ہو چکی ہے، کیا ہمیں اس کے روزے رکھنا ہوں گے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب:اگر کوئی شخص فوت ہو جائے اور اس کے ذمے نذر کے روزے ہوں تو اس کی طرف سے اس کا ولی روزے رکھے جیسا کہ ایک حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک عورت حاضر ہوئی اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میری والدہ فوت ہو گئی ہے اور اس کے ذمے نذر کے روزے تھے تو کیا میں اس کی طرف سے روزے رکھوں؟ آپ نے فرمایا: ’’اگر تیری ماں پر قرض ہوتا تو کیا تو نے ادا کرنا تھا تاکہ اس کی طرف سے ادا ہو جاتا؟‘‘ اس عورت نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے فرمایا: ’’پھر تو اپنی ماں کی طرف سے روزے رکھ۔‘‘ [2]
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے نذر کے روزے اس کے ولی کو رکھنے چاہئیں لیکن اگر اصلی فرض روزے اس کے ذمے ہوں تو انہیں رکھنا ضروری نہیں، کیونکہ نذر ماننااس کے ذمے نہ تھا بلکہ اس عورت نے خود ہی اپنے ذمہ ضروری قرار دے لیا تھا جو قرض کا درجہ حاصل کر چکی تھی اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قرض سے تشبیہ دی۔ فرض روزے شروع ہی سے اس کے
[1] تلخیص الحبیر،ص:۲۱۳،۲۱۴،ج۲۔
[2] بخاری، الصوم: ۱۹۵۳۔