کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 249
کے روزہ کی متعلق بتائیے تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا جب محرم کا چاند نظر آئے تو اس کے دن شمار کرتے رہو، جب نویں محرم ہو تو اس دن روزہ رکھو، سائل نے دریافت کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ فرمایا: ہاں۔[1] اس حدیث سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری خواہش سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ دس محرم کی بجائے نو محرم کا روزہ رکھا جائے اور یہی عاشورا کا دن ہے جس کی فضیلت احادیث میں آئی ہے۔ تائید کے لیے حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کی ایک عبارت کا سہارا بھی لیا جاتا ہے۔ فرماتے ہیں کہ مذکورہ حدیث کا ظاہری مفہوم یہی ہے کہ عاشورا کا دن نو محرم کا دن ہے۔ [2]
یہ کل کائنات ہے جس کی بنیاد پر کہا جاتا ہے کہ عاشورا کا روزہ نو محرم کو رکھنا چاہیے، دسویں محرم کا روزہ منسوخ ہے۔
قارئین کرام! ہماری عافیت اسی میں ہے کہ ہم قرآن و سنت کی نصوص کو اپنے اسلاف کی فہم کے مطابق انہیں عمل میں لائیں، اس کے مقابلہ میں کوئی انفرادی رائے قائم نہ کریں، چنانچہ نویں تاریخ کو روزہ رکھنے کے متعلق بیان کرنے والے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ ہیں، ان کا ذاتی فتویٰ یہ ہے کہ جو اس روایت کو بیان کرنے کے بعد انہوں نے فرمایا ہے کہ نو اور دس محرم کا روزہ رکھو، اس لیے کہ یہود کی مخالفت کرو۔[3]علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے سائل کی رہنمائی کرتے ہوئے فرمایا کہ نویں محرم کا روزہ رکھو، جواب میں یوم عاشورہ کی تعیین نہیں کی کہ وہ دسویں تاریخ ہے کیونکہ اس کے متعلق سوال کرنے کی کوئی ضرورت نہ تھی اور نہ ہی اس سے کوئی فائدہ وابستہ تھا۔4[4]علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اس کے متعلق بہت وضاحت سے لکھا ہے، فرماتے ہیں کہ اکثر احادیث میں نو اور دس کے روزے کا ذکر ہے، رہا صرف نو کا روزہ رکھنا تو روایات کو نہ سمجھنے کے باعث ایسا کہا جاتا ہے، نیز احادیث کے الفاظ اور ان کی تمام اسناد کی جانچ پڑتال نہ کرنے کی وجہ سے یہ مؤقف اختیار کیا گیا ہے حالانکہ یہ مؤقف لغت اور شریعت دونوں کے خلاف ہے۔[5]
امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ میں آیندہ سال نویں محرم کا روزہ رکھوں گا، اس کا مقصد یہ تھا کہ میں دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ رکھوں گا تاکہ یہود کے ساتھ مشابہت باقی نہ رہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا یہ قول کہ یہود کی مخالفت کرو نو اور دس محرم کا روزہ رکھو، اس کے علاوہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی مرفوع حدیث کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کے متعلق فرمایا کہ اس کا روزہ رکھو، اس سے پہلے ایک دن یا اس کے بعد ایک دن کا روزہ بھی ساتھ رکھو، یہود کی مشابہت اختیار کرو، ہمارے مؤقف کی صریح دلیل ہے۔[6]مولانا عبید اللہ رحمانی رحمۃ اللہ علیہ نے عاشورا محرم کا روزہ رکھنے کے متعلق تین درجات ترتیب دئیے ہیں۔
1) سب سے نچلا درجہ یہ ہے کہ صرف دس محرم کا روزہ رکھا جائے۔ 2) اس سے اوپر دس اور گیارہ کا روزہ رکھنا ہے۔ 3)سب سے اوپر کا درجہ نو اور دس محرم کا روزہ رکھنا ہے کیونکہ اکثر احادیث میں نو اور دس محرم کا روزہ رکھنے کا تذکرہ ہے۔ [7]
[1] صحیح مسلم، الصیام:۲۶۶۴۔
[2] فتح الباری،ص:۳۱۱،ج۴۔
[3] بیہقی،ص:۲۸۷، ج۴
[4] نیل الاوطار، ص:۲۳۸،ج۴۔
[5] زاد المعاد،ص:۷۲،ج۲-
[6] شرح معانی الآثار،ص:۳۳۸،ج۱۔
[7] مرعاۃ المفاتیح: ۲۷۲،ج۴-