کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 248
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بھی اسی طرح مروی ہے[1]حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں عاشورا کے دن روزہ رکھنے کا حکم دیتے تھے، شوق دلواتے اور اس کی پابندی کراتے تھے، جب رمضان کے روزے فرض ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق نرمی کر دی، ہمیں نہ تو اس کے متعلق حکم دیتے او رنہ ہی منع کرتے نیز اس سلسلہ میں ہماری نگہداشت بھی نہیں کرتے تھے۔[2]حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے بھی اس سے ملتی جلی روایات ملتی ہیں۔ [3] حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بھی حضرت اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ عاشورا کا روزہ پہلے فرض تھا، رمضان کے بعد اس کی فرضیت ختم ہو چکی ہے اگر روزہ رکھنا ہے تو بہتر بصورت دیگر اسے ترک بھی کیا جا سکتا ہے۔ [4] فتح مکہ سے پہلے پہلے آپ اہل کتاب کی موافقت کو پسند کرتے تھے لیکن فتح مکہ کے بعد مذہبی شعار میں ان کی ممانعت کا حکم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیشتر احکام میں ان کی ممانعت کا حکم دیا چنانچہ عاشورا کا روزہ بھی ان کا مذہبی شعار تھا، اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امر میں بھی اہل کتاب کی مخالفت کا حکم دیا اور امت کو بایں الفاظ تلقین کرتے ہوئے فرمایا: ’’عاشورا کے دن کا روزہ ضروررکھو لیکن اس میں یہود کی مخالفت کرو جس کی یہ صورت ہے کہ تم عاشورا کے ایک دن پہلے یا ایک دن بعد کا بھی روزہ رکھو۔[5] اس روایت کی سند میں کچھ ضعف ہے لیکن دیگر متابعات و شواہد کے پیش نظر یہ ضعف نقصان دہ نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اس بات کا اظہار فرمایا چنانچہ ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ رکھا اور دوسروں کو روزہ رکھنے کا حکم دیا تو صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس دن کو یہود و نصاریٰ بھی عظیم خیال کرتے ہیں اور اس کا روزہ رکھتے ہیں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آیندہ سال اگر اللہ نے چاہا تو ہم نویں محرم کا روزہ رکھیں گے۔‘‘ [6]ایک روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ’’اگر میں آیندہ سال زندہ رہا تو نویں محرم کا روزہ رکھوں گا۔‘‘ [7] لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیندہ ماہ محرم آنے سے پہلے ماہ ربیع الاول میں رفیق اعلیٰ سے جا ملے اور نویں محرم کا روزہ رکھنے کی نوبت نہ آئی۔ [8] بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورا کا اس طرح روزہ رکھنے کی تاکید فرمائی اور اس کی فضیلت کو بایں الفاظ بیان کیا کہ عاشورا کا روزہ رکھنے سے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔[9] افسوس ہے کہ آج کل بلاوجہ عاشورا کے رو زہ کو ایک اختلاف اور نزاعی مسئلہ بنا دیا گیا ہے اوردسویں محرم کے روزے کا سرے سے انکار کیا جا رہا ہے۔ ان حضرات کا کہنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خواہش کے پیش نظر اب صرف نویں محرم کا روزہ رکھنا چاہیے، بعض حضرات تو کہتے ہیں کہ اب عاشورا نویں تاریخ کو ہے، دسویں تاریخ کی قطعی طور پر کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ ان حضرات کی دلیل حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ کی درج ذیل روایت ہے: حضرت حکم بن اعرج کہتے ہیں کہ میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہواجبکہ آپ چاہ زمزم کی پاس اپنی چادر لپیٹ کر بیٹھے ہوئے تھے، میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ مجھے عاشورہ
[1] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۱۔ [2] صحیح مسلم ، الصیام: ۲۶۵۲۔ [3] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۳۔ [4] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۵۰۔ [5] مسند امام احمد،ص:۲۴۱،ج۱۔ [6] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۶۔ [7] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۷۔ [8] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۶۔ [9] صحیح مسلم، الصیام: ۲۷۴۶۔