کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 246
اسی طرح حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ جب عورت کو احتلام ہو جائے تو کیا اس پر غسل فرض ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں فرض ہے جب وہ پانی دیکھے۔‘‘ [1] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ احتلام کی صورت میں اگر وہ تری دیکھے تو غسل کرنا ضروری ہے، متاثرہ جگہ دھونے سے کام نہیں چلے گا۔ (واللہ اعلم) عاشور ا محرم کے روزوں کی تعداد سوال:اس سال ہمارے ہاں عاشورا محرم کے روزے کے متعلق اختلاف ہوا کہ یہ صرف نویں محرم کا رکھنا چاہیے، جبکہ ہم اس سے پہلے نویں اور دسویں محرم کا روزہ رکھتے تھے براہ کرم اس کے متعلق وضاحت کریں۔ جواب:اس سال عاشورا محرم کے موقع پر ہمیں متعدد مقامات سے فون آئے اور کچھ حضرات نے زبانی استفسار کیا کہ عاشورا محرم کے روزہ کی کیا حیثیت ہے؟ اور اسے کس دن رکھا جائے؟ حضرت عبداللہ بن عباسرضی اللہ عنہ کے حوالہ سے بیان کیا جاتا ہے کہ صرف نویں محرم کو رکھنا چاہیے، دسویں محرم کا روزہ نہیں ہے وغیرہ وغیرہ، اس لیے ضروری ہے کہ ذرا تفصیل سے اس کے متعلق وضاحت کر دی جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ رمضان کے بعد کس مہینے کے روزے افضل ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے مہینے محرم کے روزے رمضان کے بعد فضیلت والے ہیں۔‘‘ [2]پہلی امتیں بھی اس دن کا احترام کرتی تھیں اور روزہ رکھتی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ طیبہ تشریف لائے تو آپ نے یہود مدینہ کو اس دن کا روزہ رکھتے ہوئے دیکھا، آپ نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ دن ہے جس میں حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ پر لنگر انداز ہوئی تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حضور شکرانے کے طور پر روزہ رکھا۔ [3] اس کا مطلب یہ ہے کہ محرم کی دس تاریخ کو حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی جودی پہاڑ کی چوٹی پر ٹھہری تھی اور انہیں بہت بڑے طوفانی سیلاب سے نجات ملی تھی، اس بنا پر حضرت نوح علیہ السلام نے عاشورا کے دن اللہ کے حضو روزے کا نذرانہ پیش کیا۔ یہودی بھی اس دن کا روزہ رکھتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے اس کی وجہ پوچھی تو بتایا کہ یہ دن بڑا بابرکت ہے اس دن اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن فرعون سے نجات دی، اس بنا پر حضرت موسیٰ علیہ السلام نے شکریہ کے طور پر اس دن ایک روزہ رکھا۔ [4] یہود مدینہ اس دن کو قومی جشن کے طور پر مناتے اور فرحت و انبساط کا اظہار کرتے تھے، حدیث میں ہے کہ اہل خیبر اس دن عید مناتے اس دن عورتوں کو زیور پہناتے اور سامان زینت سے آراستہ کرتے تھے۔ [5] اس دن اظہار مسرت کے لیے عیسائی بھی یہود کے ساتھ شریک ہوتے اور اس دن کی عظمت کو بجا لاتے، حدیث میں اس مشترکہ عظمت کا اظہار بایں الفاظ بیان ہوا ہے کہ اس دن کو یہودی اور عیسائی بڑا عظیم خیال کرتے تھے۔[6] ایام جاہلیت میں قریش بھی اس دن کو عظیم سمجھتے تھے اور اس کی عظمت کے پیش نظر کعبہ شریف کو غلاف پہناتے چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ زمانہ جاہلیت میں قریش سے کوئی ایسا گناہ سرزد ہو گیا جو ان کے دلوں میں کانٹے کی حیثیت اختیار کر گیا،
[1] صحیح بخاری، الغسل: ۲۸۲۔ [2] صحیح مسلم، الصیام: ۲۷۴۶۔ [3] مسند احمد،ص:۳۶۰،ج۲۔ [4] صحیح بخاری، الصوم: ۲۰۰۴۔ [5] صحیح مسلم ، الصیام: ۲۶۶۱۔ [6] صحیح مسلم، الصیام: ۲۶۶۶۔