کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 244
اگر روزے دار مریضہ اندام نہانی میں دوائی رکھ لے سوال:میرا طبابت کا پیشہ ہے، کچھ عورتیں سیلانِ رحم کا شکار ہوتی ہیں، انہیں اندام نہانی میں دوا رکھنا ہوتی ہے، اس سے مواد خشک ہو جاتا ہے، کیا روزے کی حالت میں عورت کو اس طرح اندام نہانی میں دوا رکھنا جائز ہے۔ اس سے روزہ تو متاثر نہیں ہوتا؟ جواب:روزے رکھنے کے بعد قصداً کھانے پینے اور جماع کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس طر ح سینگی لگوانے فصد کروانے، دانستہ قے کرنے اور ناک میں دوا ڈالنے سے بھی روزہ متاثر ہوتا ہے۔ صورت مسؤلہ میں دوا رکھنے سے روزہ متاثر نہیں ہوتا کیونکہ ایسا کرنے سے دوائی معدہ میں نہیں جاتی بلکہ صرف مواد کو خشک کرتی ہے، جیسا کہ گہرے زخم میں دوائی بھری جاتی ہے تاکہ اسے خشک کیا جائے، بہرحال ہمارے رجحان کے مطابق ہر اس چیز سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے جو کسی بھی طریقہ سے معدہ تک پہنچ جائے جیسا کہ ڈرپ وغیرہ سے غذا معدہ تک پہنچائی جاتی ہے، اس سے روزہ فاسد ہو جاتا ہے لیکن اگر کوئی دوا معدہ کو متاثر نہیں کرتی، تو اس سے روزہ نہیں ٹوٹتا ہے لہٰذا اگر کسی مریضہ کو اپنی اندام نہانی میں دوا رکھنے کی ضرورت پڑے تو ایساکرنے سے روزہ نہیں ٹوٹے گا، اسے چاہیے کہ وہ اپنے روزے کو پورا کر لے۔ (واللہ اعلم) اعتکاف گاہ میں کب داخل ہونا چاہیے سوال:معتکف کو اعتکاف گاہ میں کب داخل ہونا چاہیے اور کن صورتوں میں مسجد سے نکلنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔ جواب:اعتکاف کرنے والے کو چاہیے کہ وہ بیس رمضان المبارک کی شام کو مسجد میں پہنچ جائے اور رات بھر مسجد میں مصروف عبادت رہے اور اگلے روز صبح کی نماز پڑھ کر اپنی اعتکاف گاہ میں داخل ہو، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے تھے۔[1]آخری عشرہ کا آغاز بیس رمضان کی شام کو ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اعتکاف کا آغاز بیس رمضان کی شام کی بعد ہونا چاہیے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اعتکاف کا ارادہ کرتے تو نماز فجر ادا کر کے اپنی اعتکاف کی جگہ میں داخل ہو جاتے۔[2] اکثر ائمہ نے اسی مؤقف کو اختیار کیا ہے، پھر معتکف کو چاہیے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و بندگی، نوافل، تلاوت قرآن اور ذکر الٰہی میں مشغول رہے کیونکہ اعتکاف بیٹھنے کا یہی مقصد ہے، اپنے ساتھیوںسے بات چیت بھی کر سکتا ہے،بالخصوص جب گفتگو کرنے میں کوئی فائدہ ہو، فضول باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ اعتکاف کرنے والے کے لیے مسجد سے نکلنے کی حسب ذیل تین اقسام بیان کی گئی ہیں: 1) کسی ایسے امر کے لیے باہر نکلنا جس کے بغیر چارۂ کار نہ ہو مثلاً کھانے پینے کے لیے نکلنا جبکہ گھر سے کوئی کھانا لانے والا نہ ہو، اس طرح بول و براز اور وضو و غسل کے لیے مسجد سے نکلنا، ایساکرنا جائز ہے لیکن کسی مسجد میں جمعہ پڑھانے کے لیے معتکف کا
[1] بخاری، فضائل قرآن: ۴۹۹۹۔ [2] ترمذی، الصوم: ۷۹۱۔