کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 243
جواب:بیماریاں دو طرح کی ہوتی ہیں ایک یہ کہ ان سے شفایابی کی امید نہیں ہوتی، وہ مستقل روگ کی صورت اختیار کر جاتی ہیں، ایسے مریض کو چاہیے کہ وہ فدیہ ادا کرے، اگر فدیہ ادا کیے بغیر فوت ہو گیا ہے تو جتنے روزے وہ نہیں رکھ سکا، ان کا حساب کر کے اس کے مال سے فدیہ ادا کر دیا جائے۔ دوسری قسم یہ ہے کہ اسے اتفاقی طور پر بیماری لاحق ہو گئی اور وہ بیماری جاری رہی حتیٰ کہ وہ فوت ہو گیا، اس صورت میں اس کی طرف سے روزے نہیں رکھے جائیں گے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ كَانَ مِنْكُمْ مَّرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ١﴾[1] ’’جو کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں ان کا شمار کرے۔‘‘ لیکن صورت مسؤلہ میں مریض کو قضا شدہ روزے رکھنے کی مہلت ہی نہیں ملی اور وہ فوت ہو گیا، لہٰذا اس سے قضا کی ادائیگی ساقط ہو جائے گی، کیونکہ اسے وہ وقت ہی نہیں ملا جس میں اس پر روزہ فرض تھا وہ ایسے ہے جیسے وہ ماہ شعبان میں فوت ہو گیا ہو۔ (واللہ اعلم) شرعی عذر کی بنا پر دو سال روزے نہ رکھ سکا سوال:ایک شخص بیمار تھا اور وہ رمضان میں روزے نہیں رکھ سکا، اللہ تعالیٰ نے اسے صحت عطا فرمائی لیکن وہ روزے نہیں رکھ سکا، حتیٰ کہ دوسرا رمضان شروع ہو گیا، اب اس کے لیے کیا حکم ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب:رمضان کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ شَهِدَ مِنْكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ١ وَ مَنْ كَانَ مَرِيْضًا اَوْ عَلٰى سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ اَيَّامٍ اُخَرَ﴾[2] ’’تم میں سے جو کوئی اس مہینہ میں موجود ہو، اسے چاہیے کہ وہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار یا مسافر ہو تو دوسرے دنوں میں ان کا شمار کرے۔‘‘ وہ شخص جس نے کسی شرعی عذر کی وجہ سے روزے ترک کیے تھے، اس کے لیے ضروری تھا کہ اللہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے دوسرے رمضان سے پہلے پہلے قضاء شدہ روزوں کو رکھ لیتا جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا فرمان ہے: رمضان کے روزے میرے ذمے ہوتے تھے تو میں ان کی قضاء کرنے کی شعبان کے علاوہ کسی دوسرے مہینے میں اس کی استطاعت نہ رکھتی تھی۔[3] حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے اس فرمان اور عمل سے معلوم ہوتا ہے کہ دوسرا رمضان شروع ہونے سے پہلے پہلے قضاء کے روزے رکھ لینا ضروری ہیں، اگر کوئی انہیں دوسرے رمضان تک مؤخر کر دے تو اس سے قضاء شدہ روزے ساقط نہیں ہوں گے۔ اسے چاہیے کہ وہ اللہ کے حضور توبہ استغفار کرے اور اپنے اس فعل پر شرمسار ہو اور رمضان کے بعد اپنے چھوڑے ہوئے روزوں کو ضرور رکھے، چھوڑے ہوئے روزوں کا رکھناضروری ہے خواہ وہ دوسرے رمضان کے بعد ہی رکھے۔ (واللہ اعلم)
[1] ۲/البقرۃ: ۱۸۴۔ [2] ۲/البقرۃ:۱۸۵۔ [3] صحیح بخاری، الصوم: ۱۹۵۱۔