کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 241
عاقل ، بالغ اور اس کی طاقت رکھتا ہو، ہاں عاجز، مریض اور مسافر پر روزہ فرض نہیں ہے۔ جب مرض اور سفر کی حالت ختم ہو جائے تو چھوٹ جانے والے روزوں کی ادائیگی ضروری ہے۔ (واللہ اعلم) حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کو روزے کی رخصت سوال:اللہ تعالیٰ نے مجھے دو بچیاں دی ہیں اور میں انہیں دودھ پلاتی ہوں، اگر میں روزہ رکھوں تو اس سے دودھ متاثر ہوتا ہے، شریعت مطہرہ میں میرے متعلق کیا گنجائش ہے، کیا میں فدیہ دے سکتی ہوں یا مجھے موقع ملنے پر روزے رکھنا ہوں گے؟ جواب:حاملہ اور دودھ پلانے والی عورت کے متعلق حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور نصف نماز کو ساقط کر دیا ہے، اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون سے روزہ ساقط کر دیا ہے۔‘‘ [1] اس حدیث کے پیش نظر اگر دودھ پلانے والی عورت کو اپنے بچے کے متعلق کمزوری کا اندیشہ ہو تو اسے روزہ چھوڑ دینے کی اجازت ہے لیکن دوسرے دنوں میں ترک کردہ روزوں کی قضا ضروری ہے لیکن اگر آیندہ رمضان سے پہلے پہلے اسے ترک شدہ روزوں کی قضا کا وقت نہیں ملتا اور وہ اس کی طاقت نہیں رکھتی تو اس صورت میں اسے ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہو گا، ایسی عورت کو روزہ کی بالکل معافی نہیں ہے او رنہ ہی اسے قضا کے ساتھ فدیہ دینے کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ بعض علما کا مؤقف ہے، بہرحال دودھ پلانے والی عورت جتنے روزے چھوڑے گی، ان کی بعد میں قضا دے اگر اس کی طاقت نہیں تو فدیہ دے کر اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہو سکتی ہے۔ احتلام کی وجہ سے روزے کا حکم سوال:کیا احتلام آنے سے روزہ ختم ہو جاتا ہے؟ قرآن و حدیث کے مطابق جواب دیں۔ جواب:اختیاری حالت میں مادہ منویہ خارج کرنے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے البتہ غیر اختیاری حالت میں اگر ایسا ہو جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوتا۔ اس بنا پر احتلام سے روزہ باطل نہیں ہوتا۔ کیونکہ وہ انسان کے اختیار میں نہیں ہے اور حالت نیند میں ایسا ہوتا ہے، جبکہ انسان مرفوع القلم ہوتا ہے۔ لیکن کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ رمضان المبارک میں بھی شرم و حیا سے کام نہیں لیتے اور وہ رات کو ٹی وی یا وی سی آر پر فحش مناظر دیکھتے رہتے ہیں، صبح کے وقت وہ روزہ رکھ کر پھر سو جاتے ہیں، گندے مناظر دیکھنے کی وجہ سے بحالت روزہ انہیں احتلام ہو جاتا ہے ایسے لوگوں کے متعلق نرم گوشہ اختیار نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ لوگ بحالت روزہ احتلام کے اسباب خود پیدا کرتے ہیں، ہمارے رجحان کے مطابق اس قسم کے احتلام سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اس قسم کے روزے کا، روزے دار کو کوئی فائدہ نہیں ہے۔ کیونکہ روزہ تو انسان کو پرہیز گار بناتا ہے، اگر روزے رکھنے سے ایسے کاموں سے پرہیز نہیں کیا جاتا جو اس کے منافی ہیں تو ایسے روزے کا کیا فائدہ؟ بہرحال عام انسان کو اگر روزے رکھنے کے بعد احتلام ہو جائے تو
[1] مسند امام احمد،ص: ۲۴۷،ج۳۔