کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 239
سکتے ہیں مثلاً بہت بوڑھا شخص یا مریض جس کے تندرست ہونے کی امید نہ ہو۔ ان کے حق میں اللہ تعالیٰ نے یہ تخفیف فرمائی ہے کہ وہ ہر روزے کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلا دیں ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَلَى الَّذِيْنَ يُطِيْقُوْنَهٗ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِيْنٍ١﴾[1] ’’اور جو لوگ روزہ کی طاقت نہیں رکھتے وہ بطور فدیہ ایک مسکین کو کھانا دیں۔‘‘ سیدنا ابن عباسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کا حکم اس بوڑھے مرد اور بوڑھی عورت کے لیے ہے جو روزہ نبھانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ [2] لیکن جس نے کسی عارضی عذر کی بنا پر روزہ چھوڑا، جب وہ عذر زائل ہو جائے تو رمضان کے بعد ان روزوں کی قضاء ضروری ہے ایسے لوگ فدیہ نہیں بلکہ روزے رکھیں گے اور جن لوگوں نے دوسروں کو روزے رکھوانے ہیں وہ سحری اور افطاری دو وقت کا کھانا دیں یا اس پر اٹھنے والے اخراجات کے حساب سے انہیں پیسے دے دیں۔ (واللہ اعلم) روزے کی نیت کرنا سوال روزے کی نیت سے کیا مراد ہے؟ ہمارے ہاں روزے کی نیت کے لیے یہ الفاظ بتائے جاتے ہیں: ’’وبصوم غد نویت من شھر رمضان‘‘ اس کی شرعی حیثیت کیا ہے۔ جواب روزے دو طرح کے ہوتے ہیں: 1) فرض روزہ: جیسے رمضان کا روزہ، نذر کا روزہ، کفارہ کا روزہ وغیرہ۔ فرض روزے کے لیے رات کو نیت کرنا ضروری ہے، اس کا طریقہ یہ ہے کہ روزہ رکھنے والا رات کے وقت اپنے دل میں ارادہ کرے کہ وہ صبح رمضان یا نذر یا کفارہ یا قضاء کا روزہ رکھے گا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس شخص نے طلوع فجر سے پہلے رات کو روزہ رکھنے کی نیت نہ کی اس کا روزہ نہیں۔‘‘ [3] یہ حدیث بھی اس امر کا ثبوت ہے: ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے۔‘‘[4]ان روایات کی روشنی میں فرض روزے کی نیت رات کو کرنا ضروری ہے اگر کوئی دن چڑھے بیدار ہو اور اس نے طلوع فجر کے بعد کچھ نہ کھایا پیا پھر اس نے روزے کی نیت کر لی تو اس کا روزہ نہیں ہو گا، کیونکہ رات کے وقت طلوع فجر سے پہلے نیت کرنا ضروری تھا۔ 1) روزہ کی دوسری قسم نفلی روزہ ہے، اس کی نیت دن چڑھے بھی کی جا سکتی ہے چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ ایک روز میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور پوچھا: ’’کیا تمہارے پاس کھانے کے لیے کچھ ہے؟‘‘ میں نے عرض کیا جی نہیں، آپ نے فرمایا: ’’تب میں روزہ رکھ لیتا ہوں۔‘‘[5] اس حدیث سے ثابت ہوا کہ آپ پہلے بحالت روزہ نہ تھے کیونکہ آپ نے کھانا طلب کیا، اس سے یہ بھی ثابت ہو اکہ نفلی روزے کی نیت میں دن چڑھے تک تاخیر کرنا جائز ہے، واضح رہے کہ نفلی روزے کی نیت دن میں اس وقت جائز ہے جب نیت سے پہلے روزے کے منافی کام یعنی فجر ثانی کے بعد کچھ کھایا پیا نہ ہو، بصورت دیگر روزہ
[1] ۲/البقرۃ:۱۸۴۔ [2] بخاری، التفسیر: ۴۵۰۵۔ [3] بیہقی،ص:۲۰۳،ج:۴۔ [4] صحیح بخاری، بدء الوحی:۱۔ [5] صحیح مسلم، الصیام: ۱۱۵۴۔