کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 238
اس حدیث کے پیش نظر خواتین کو چاہیے کہ وہ صبر سے کام لیں اور اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب کی امید رکھیں، جب حیض کی وجہ سے نماز اور روزہ میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے تو غیر فطری راستہ اختیار نہ کریں، ایسے حالات میں اللہ کے ذکر کا دروازہ تو کھلا رہتا ہے، انہیں چاہیے کہ اللہ کا ذکر کریں، صدقہ و خیرات کریں، ان کے لیے یہ افضل ترین کام ہیں۔ طبی لحاظ سے یہ گولیاں نقصان سے خالی نہیں ہوتیں کیونکہ حیض کا خون طبعی طور پر خارج ہوتا ہے، جب کسی طبعی چیز کو زبردستی روکنے کی کوشش کی جائے تو جسم میں اس کا منفی رد عمل ہوتا ہے، ایسی ادویات کا یہ بھی نقصان ہے کہ ان کے استعمال سے خواتین کی ماہانہ عادت خراب ہو جاتی ہے، جس بنا پر وہ اضطراب و پریشانی کا شکار رہتی ہیں، بہرحال اگر صحت کے حوالہ سے کوئی نقصان کا اندیشہ نہ ہو اور خاوند سے اجازت لے کر انہیں استعمال کیا جائے تو جواز کا فتویٰ دیا جا سکتا ہے، لیکن ہم ذاتی طور پر ان مانع حیض گولیوں کے استعمال کو پسند نہیں کرتے کیونکہ اس میں نقصان کا اندیشہ اور ایک فطری راستے کو روکنے کا ذریعہ ہے۔ (واللہ اعلم) دعائے قنوت میں طویل دعا سوال:بعض علماء کرام نماز وتر میں دعائے قنوت پڑھتے وقت بڑی طویل دعاپڑھنا شروع کر دیتے ہیں، اس سے کچھ مقتدی حضرات میں اکتاہٹ پیدا ہو جاتی ہے، کتاب و سنت کے اعتبار سے اس کی کیا حیثیت ہے؟ راہنمائی فرمائیں۔ جواب:نماز وتر اگر باجماعت ادا ہو تو امام کو قنوت وتر پڑھنا چاہیے، اس کے ساتھ مزید دعائیں شامل کی جا سکتی ہیں اور اسے قنوت وتر کے بجائے قنوت نازلہ بھی بنایا جا سکتا ہے جیسا کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے ایسا کرنا منقول ہے، لیکن دعا اس قدر طویل نہیں ہونی چاہیے جو مقتدیوں پر گراں گزرے یا جس سے وہ اکتا جائیں، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوران نماز اس عمل سے منع فرمایا ہے چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ جب اپنی قوم کو نماز پڑھاتے تھے تو طویل قراء ت کرتے تھے، کچھ لوگوں نے شکایت کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں مبتلا کرنے لگے ہو۔[1]اس حدیث سے معلوم ہوا کہ دوران نماز ہر اس عمل سے پرہیز کرنا چاہیے جس سے مقتدی حضرات میں اکتاہت پیدا ہو، اس بنا پر نماز وتر میں لمبی لمبی دعاؤں سے پرہیز کرنا چاہیے، ہاں اگر مقتدی حضرات اس کی طوالت محسوس نہ کریں اور ان کی اکتاہٹ کا باعث نہ ہو تو ایسا کرنے میں چنداں حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) روزے کا فدیہ سوال:رمضان کے روزوں کا فدیہ کتنا ہے اور یہ کن لوگوں پر فرض ہے؟ براہ کرام تفصیل سے آگاہ فرمائیں۔ جواب:اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر رمضان کے روزے فرض قرار دئیے ہیں، جو حضرات معذور نہیں ہیں وہ ان روزوں کو بروقت ادا کریں اور جنہیں روزہ رکھنے سے کوئی عذرمانع ہے جیسا کہ مریض اور مسافر شخص ہے، ایسے افراد بعد میں قضا دیں۔ بشرطیکہ دوسرے دنوں میں وہ قضا کی طاقت رکھتے ہوں، ایک تیسری قسم بھی ہے جو روزہ بروقت نہیں رکھ سکتے اور نہ ہی بعد میں قضا دے
[1] صحیح بخاری، الاذان: ۷۰۵۔