کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 236
کرے تو اس کا عذر بھی قابل قبول ہے نیز جو عورت بچے کو دودھ پلاتی ہو اور روزہ رکھنے کی صورت میں اسے اپنے بچے کے متعلق کمزوری کا اندیشہ ہو تو اسے روزہ چھوڑ دینے کی اجازت ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسافر سے روزہ اور نصف نماز ساقط کر دی ہے، اسی طرح حاملہ اور دودھ پلانے والی خاتون سے روزہ ساقط کر دیا ہے۔‘‘ [1] جہاد فی سبیل اللہ میں بھی طاقت اور قوت کی ضرورت ہوتی ہے، اس کے لیے بھی روزہ ترک کرنا جائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے وقت فرمایا تھا: ’’تم اپنے دشمن کے قریب پہنچ چکے ہو، اب روزہ نہ رکھنا تمہارے لیے باعث قوت ہے۔‘‘ [2] لہٰذا جب کوئی ایسا سبب موجود ہو جس کی وجہ سے روزہ ترک کرنا جائز ٹھہرے اور انسان اس عذر کی بنا پر روزہ چھوڑ دے تو دن کے باقی حصہ میں اس کے لیے کھانے پینے سے باز رہنا ضروری نہیں ہے۔ ہمارے رجحان کے مطابق اگر کوئی مریض دن کے وقت صحت یاب ہو جائے یا کوئی مسافر اپنی گھر پہنچ جائے اور اس نے روزہ چھوڑا ہوا ہو تو شام تک اس کے لیے کھانے پینے سے باز رہنا ضروری نہیں ہے، کیونکہ انہوں نے ایک جائز سبب کی وجہ سے روزہ چھوڑا تھا، ان کے لیے اس دن کی حرمت باقی نہیں ہے، وہ شام تک کھا پی سکتا ہے، اسے پابند کرنا کہ وہ شام تک نہ کچھ کھائے اور نہ پئے ناروا پابندی ہے۔ (واللہ اعلم) شب قدر کا تعین سوال قرآن و حدیث کے مطابق شب قدر کے متعلق کیا معلومات ہیں اور کیا اس رات کی تعیین ممکن ہے؟ اگر اس رات کا احساس ہو تو کیا پڑھا جائے؟ جواب شب قدر ایسی رات ہے جس میں عبادت کرنا ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَيْلَةُ الْقَدْرِ١ۙ۬ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍ﴾ [3] ’’لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’جو شخص ایمان کے ساتھ طلبِ ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کرے گا اس کے سابقہ گناہ معاف کر دئیے جائیں گے۔‘‘ [4] پہلے اس رات کی تعیین کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا گیا تھا لیکن پھر آپ کو بھُلا دی گئی، اس کا سبب بھی احادیث میں بیان ہوا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو اس کے متعلق آگاہ کرنے کے لیے تشریف لا رہے تھے، اچانک آپ نے دیکھا کہ دو مسلمان آپس میں کسی بات پر جھگڑ رہے ہیں تو آپ ان کے پاس کھڑے ہو گئے، ان کی باتیں سننے کے دوران آپ کے ذہن سے اس رات کی تعیین کا علم محو کر دیا گیا۔ [5] حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ اس کی تعیین کا محو ہو جانا تمہارے لیے بہتر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اب اسے
[1] مسند امام احمد،ص:۲۴۷،ج۳۔ [2] صحیح مسلم، الصیام: ۱۱۲۰۔ [3] ۹۷/القدر:۳۔ [4] صحیح بخاری، فضل لیلۃ القدر: ۲۰۱۴۔ [5] صحیح بخاری، فضل لیلۃ القدر: ۲۰۲۳۔