کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 224
بہت دور ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم دیکھو کہ اس کے بالمقابل تمہارے راستہ میں کون سا مقام ہے، چنانچہ آپ نے ان کے لیے ذات عرق میقات مقرر کر دی۔ [1] حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اس اثر سے معلوم ہوا کہ میقات کے بالمقابل جگہ کا وہی حکم ہے جو میقات کا ہے، اس بنا پر اگر کوئی میقات کے اوپر سے گزر رہا ہو تو اس کے بالمقابل اوپر والے مقام سے تلبیہ شروع کر دے کیونکہ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ عمرہ کرنے والا میقات کے بالمقابل خشکی میں ہو یا ہوا میں، یا سمندر میں، یہی وجہ ہے کہ بحری جہاز سے آنے والے حضرات یلملم یا رابغ کے بالمقابل آتے ہیں تو احرام باندھ لیتے ہیں، بہرحال بذریعہ ہوائی جہاز سفر کرنے والے کے احرام کی درج ذیل صورتیں ہیں: ٭ گھر میں غسل کر کے، اپنے معمول کے کپڑے زیب تن کرے اور اگر چاہے تو وہ گھر ہی سے احرام پہن لے۔ ٭ گھر میں احرام نہ باندھا ہو تو ہوائی جہاز میں اس وقت احرام باندھ لے جب ہوائی جہاز کا عملہ اس کے متعلق اعلان کرتا ہے، وہ تقریباً بالمقابل پہنچنے سے پندرہ منٹ پہلے اعلان کرتا ہے۔ جب ہوائی جہاز میقات کے بالمقابل پہنچے اور عملہ اس امر کا اعلان کر دے تو حج یا عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ کہنا شروع کر دے۔ ٭ کوئی شخص غفلت یا بھول کے اندیشے کے پیش نظر ازراہ احتیاط میقات پر آنے سے پہلے احرام باندھ لے اور اس کی نیت کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بہرحال عمرہ کرنے والے کو خبردار رہنا چاہیے کہ جب بھی ہوائی جہاز کا عملہ اعلان کرے کہ ہم پندرہ منٹ بعد میقات کے بالمقابل پہنچ جائیں گے تو اسے بروقت حج یا عمرہ کی نیت کر کے تلبیہ شروع کر دینا چاہیے، بہتر ہے سوار ہوتے وقت ہی احرام کی نیت کرے اور تلبیہ کہنا شروع کر دے۔ (واللہ اعلم) احرام کی حالت میں مکہ پہنچنے سے پہلے ایام آجانا سوال میں اورمیری بیوی دونوں عمرہ کرنے کے لیے مکہ مکرمہ جا رہے تھے جب کہ ہم دونوں نے احرام بھی باندھا تھا، لیکن مکہ آنے سے پہلے میری بیوی کو ایام آگئے، چنانچہ میں نے تو اپنا عمرہ مکمل کر لیا، اب میری بیوی کے متعلق شرعی طور پر کیا حکم ہے؟ جواب جس عورت نے احرام کی نیت کی ہو اور عمرہ کرنے مکہ جا رہی ہو، لیکن عمرہ کرنے سے پہلے ہی اس کو ایام آجائیں تو اس کے متعلق یہ حکم ہے کہ وہ مکہ میں رہے اور پاک ہونے کے بعد عمرہ ادا کرے کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زوجہ محترمہ حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کے متعلق فرمایا تھا جبکہ انہیں ایام آ گئے تھے: ’’کیا یہ ہمیں یہاں روکے رکھے گی؟‘‘ دیگر اہل خانہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! انہوں نے طواف افاضہ کر لیا ہے، آپ نے فرمایا: ’’تب کوئی حرج نہیں وہ ہمارے ساتھ مدینہ چلی آئے۔‘‘ [2]
[1] صحیح بخاری، الحج: ۱۵۳۱ [2] صحیح بخاری، الحج: ۱۷۵۷۔