کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 222
شریف میں مروی ہے۔[1] (واللہ اعلم) عمرہ کرنے والے کا طواف وداع کرنا سوال:کیا عمرہ کرنے والے پر طواف وداع کرنا ضروری ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے طواف وداع کا حکم حجۃالوداع کے موقع پر دیا تھا، وضاحت فرمائیں۔ جواب:اگر کوئی آدمی مکہ مکرمہ میں آیا اور عمرہ کرنے کے فوراً بعد واپس نہیں ہوا بلکہ اس نے مکہ میں قیام کیا تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ واپسی کے وقت طواف وداع کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کوئی شخص کوچ نہ کرے حتیٰ کہ وہ آخر وقت بیت اللہ میں نہ گزار لے۔‘‘ [2]اس حدیث کا عموم عمرہ کو شامل ہے، اس کے علاوہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا: ’’اپنے عمرہ میں بھی تم اسی طرح کرو جس طرح تم اپنے حج میں کرتے ہو۔‘‘ [3] یہ حکم بھی عام ہے، اس میں عمرہ کا طواف وداع بھی شامل ہے شریعت میں عمرہ بھی حج کی طرح ہے بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے حج اصغر کہا ہے چنانچہ عمرو بن حزم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عمرہ، حج اصغر ہے۔‘‘ [4] اس بناء پر اگرچہ طواف وداع کا حکم حجۃ الوداع کے موقع پر دیا گیا تھا لیکن عمرہ کرنے کے بعد بھی طواف وداع کرنا ہو گا۔ اس سلسلہ میں ایک روایت بھی مروی ہے ’’جو شخص اس گھر کا حج کرے اسے اپنا آخری وقت بیت اللہ میں گزارنا چاہیے۔‘‘ [5] اگرچہ یہ ایک راوی حجاج بن ارطاۃ کی وجہ سے ضعیف ہے لیکن اسے تائید کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ احرام باندھ کر دو رکعتیں پڑھنا سوال:ہمارے ہاں عام طور پر احرام باندھنے کے بعد دو رکعتیں پڑھی جاتی ہیں، میں نے کچھ علماء سے سنا ہے کہ احرام کی مخصوص دو رکعت کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہیں؟ اس کے متعلق وضاحت درکار ہے۔ جواب:احرام کے لیے دو رکعت پڑھنے کی مشروعیت کسی صحیح حدیث میں منقول نہیں ہے، ہمارے ہاں یہ غلط طور پر مشہور ہو چکا ہے کہ احرام باندھنے کے بعد دو رکعت پڑھنی چاہئیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام باندھ کر جو دو رکعت ادا کی تھی وہ احرام کی نہیں بلکہ نماز عصر کی دو رکعت (قصر) تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے لیے احرام باندھتے وقت کوئی نماز مشروع قرار دی ہو، اس کی وضاحت کسی حدیث میں نہیں ہے، اس کے متعلق نہ تو آپ کا کوئی قول مروی ہے اور نہ ہی اس کا کوئی عملی ثبوت ملتا ہے، اگر احرام باندھتے وقت کسی نماز کا وقت ہو جائے تو اسے ادا کیا جا سکتا ہے لیکن اس نماز کا احرام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں خالص کتاب و سنت پر عمل کرنے کی توفیق دے اور ثبوت کے بغیر کوئی بھی کام کرنے سے ہمیں باز رکھے۔ (آمین یا رب العالمین)
[1] صحیح بخاری، الحج: ۱۶۱۰۔ [2] مسلم، الحج: ۱۳۲۷۔ [3] صحیح بخاری، الحج: ۱۵۳۶۔ [4] دارقطنی،ص: ۲۸۵،ج۲۔ [5] ترمذی، الحج: ۲۰۰۲۔