کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 221
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’میت کی طرف سے نذر حج کی ادائیگی۔‘‘ [1] لیکن کسی کی طرف سے حج کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ انسان نے پہلے اپنا فریضہ حج ادا کر لیا ہو جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے کہا تھا: ’’پہلے اپنی طرف سے حج کرو پھر شبرمہ کی طرف سے ادا کرنا۔‘‘ [2] اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ میت کی طرف سے حج تو کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ حج کرنے والا پہلے اپنا فریضہ حج ادا کر چکا ہو لیکن میت کی طرف سے عمرہ کا ثبوت ہمیں قرآن و حدیث سے نہیں ملا، اگرچہ کچھ اہل علم حج پر قیاس کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میت کی طرف سے عمرہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ (واللہ اعلم) بیت اللہ کے چاروں کونے چھونا سوال عمرہ کرنے کے دوران اکثر دیکھا جاتا ہے کہ لوگ بیت اللہ کے چاروں کونوں کو ہاتھ لگاتے ہیں اور انہیں چومتے ہیں،ا س کی شرعی حیثیت واضح کریں، کیا بیت اللہ کے چاروں کونوں کو ہاتھ لگانا چاہیے؟ جواب بیت اللہ کے چار کونے ہیں: 1) حجر اسود،2) رکن یمانی، 3)رکن شامی، 4)رکن عراقی۔ حجر اسود کا استلام درج ذیل تین طریقوں میں سے کسی ایک کے ساتھ کیا جا سکتا ہے: 1) حجر اسودکو بوسہ دینا۔ 2) چھڑی کے ذریعے حجر اسود کو چھونا پھر چھڑی کو چوم لینا۔ 3)اپنے ہاتھ سے حجر اسود کو چھونا اور پھر ہاتھ کو بوسہ دینا۔ رکن یمانی کو صرف ہاتھ لگانا چاہیے، اسے چومنا حدیث سے ثابت نہیں ہے، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طواف میں رکن یمانی اور حجر اسود کا استلام کرتے تھے۔ [3] ایک دوسری حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رکن یمانی اور حجر اسود کو چھونا خطاؤں کو گرا دیتا ہے۔‘‘[4] دوران طواف رکن شامی اور رکن عراقی کو ہاتھ نہیں لگانا چاہیے کیونکہ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو میں نے دیکھا، آپ دوران طواف صرف حجر اسود اور رکن یمانی کو ہاتھ لگاتے تھے۔ [5]البتہ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ اور حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ بیت اللہ کے تمام کونوں کو ہاتھ لگاتے تھے اور فرماتے تھے کہ بیت اللہ کی کوئی چیز بھی متروک نہیں ہے۔ البتہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا مؤقف ہے کہ دوران طواف صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو ہاتھ لگانا چاہیے۔ [6] ہمارے رجحان کے مطابق دوران طواف صرف رکن یمانی اور حجر اسود کو ہی ہاتھ لگانا چاہیے اور اگر بوسہ دینے کا موقع ملے تو صرف حجر اسود کو چوما جائے وہ بھی اس عقیدہ کے ساتھ کہ وہ ہمارے نفع یا نقصان کا مالک نہیں ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے بخاری
[1] صحیح بخاری، الحج، باب نمبر: ۲۲۔ [2] ابوداود، المناسک: ۱۸۱۱۔ [3] نسائی، مناسک: ۲۹۴۷۔ [4] مسند امام احمد،ص:۳،ج۲۔ [5] صحیح بخاری، الحج: ۱۶۰۹۔ [6] صحیح بخاری، الحج: ۱۶۰۹۔