کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 219
میں وضاحت کریں۔ جواب:احرام کی حالت میں سرمہ ڈالنا یا کوئی دوسری دوا آنکھوں میں استعمال کرنا جائز ہے اس میں کوئی شرعی قباحت نہیں ہے جیسا کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آدمی کے متعلق فرمایا: ’’جس کی آنکھوں میں درد ہو کہ وہ احرام کی حالت میں اپنی آنکھوں پر مصبّر یعنی ایلوا کا لیپ کرے۔‘‘ [1] اختتام تلبیہ کا وقت سوال:عمرہ یا حج کرنے والے کو تلبیہ کب بند کر دینا چاہیے؟ جواب:عمرہ کرنے والا جب بیت اللہ کا طواف شروع کرے تو اسے تلبیہ بند کر دینا چاہیے، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ میں تلبیہ سے اس وقت رُک جاتے جب وہ حجر اسود کو بوسہ دیتے۔[2] اور حجر اسود کو طواف کے آغاز میں بوسہ دیا جاتا ہے، اسی طرح حج کرنےوالا اس وقت تلبیہ بند کر دے جب وہ عید کے دن بڑے شیطان کو کنکریاں مارے۔ چنانچہ حضرت فضل بن عباسرضی اللہ عنہ اور حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارنے تک تلبیہ کہتے رہتے۔ [3] بہرحال عمرہ کرنے والے کو طواف کے آغاز میں اور حج کرنےوالے کو دسویں ذوالحجہ کو کنکریاں مارنے سے پہلے تلبیہ بند کر دینا چاہیے۔ (واللہ اعلم) بہن کی موجودگی میں بہنوئی کا محرم بننا سوال:کیا کوئی عورت اپنے بہنوئی کے ساتھ حج پر جا سکتی ہے جب کہ اس عورت کی بہن یعنی بہنوئی کی بیوی بھی ہمراہ ہے؟ ہماری اس سلسلہ میں راہنمائی فرمائیں۔ جواب:اسلام نے عورت کی پاکدامنی اور عزت و ناموس کی حفاظت کے لیے دوران سفر محرم کی شرط عائد کی ہے تاکہ وہ غلط کار لوگوں سے محفوظ رہے اور سفر میں اگر کوئی مشکل آئے تو وہ اس کی مدد کر سکے۔ شرعی اعتبار سے عورت کا محرم کے بغیر سفر کرنا جائز نہیں ہے حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی بھی عورت محرم کے بغیر سفر نہ کرے۔‘‘ [4] ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میں نے تو فلاں جنگ میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوا دیا ہے جب کہ میری بیوی حج پر جا رہی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم جہاد کے بجائے اپنی بیوی کے ہمراہ حج پر جاؤ۔‘‘ [5] اہل علم نے محرم کے لیے پانچ شرطیں لگائی ہیں: 1) مرد ہو، 2)مسلمان ہو، 3) بالغ ہو، 4) عاقل ہو 5) وہ اس عورت پر ہمیشہ کے لیے حرام ہو۔
[1] صحیح مسلم، الحج: ۲۰۸۹۔ [2] ابوداود، المناسک: ۱۸۱۷۔ [3] صحیح بخاری،الحج: ۱۵۴۳۔ [4] صحیح بخاری، الجہاد: ۲۰۰۶۔ [5] صحیح بخاری حدیث نمبر۳۰۰۶۔