کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 214
اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا تذکرہ کیا تو آپ نے فرمایا: ’’وہ تو ہمیں روکے رکھے گی۔‘‘ میں نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس نے جب طواف افاضہ کر لیا تھا تب اسے حیض آیا تھا، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر تو وہ مکہ سے روانہ ہو اور ہمارے ساتھ چلے۔‘‘ [1] حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا پہلے مؤقف یہ تھا کہ حائضہ عورت مکہ میں ٹھہرے اور جب پاک ہو جائے تو طواف وداع کر کے وطن واپس آئے، پھر انہوں نے اس موقف سے رجوع کر لیا تھا اور فرماتے تھے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو طواف وداع کے متعلق رخصت دی ہے۔ [2] بہرحال حائضہ عورت کو طواف وداع کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ جب اس نے طواف افاضہ کر لیا ہے تو طواف وداع کیے بغیر وہ اپنے گھر واپس آ سکتی ہے۔ (واللہ اعلم) معذوروں کا رات کو کنکریاں مارنا سوال:اگر معذور یا کمزور حضرات رات کے وقت ہی مزدلفہ سے واپسی منیٰ آجائیں تو کیا رات کے وقت وہ کنکریاں مار سکتے ہیں؟ ایسے افراد کے متعلق شرعی ہدایات کیا ہیں؟ وضاحت کریں۔ جواب:حج کرنے والے کو چاہیے کہ وہ نویں ذوالحجہ کے بعد والی رات مزدلفہ میں گزارے پھر طلوع آفتاب سے قبل ہی منیٰ کو روانہ ہو جائے، پھر دسویں ذوالحجہ کو طلوع آفتاب کے بعد جمرہ عقبہ کو کنکریاں مارے البتہ کمزور، بوڑھے، بچے اور خواتین وغیرہ مزدلفہ میں پوری رات گزارے بغیر بھی منیٰ جا سکتے ہیں اور طلوع آفتاب سے پہلے کنکریاں مار سکتے ہیں جیسا کہ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے رات کو کنکریاں ماریں پھر واپس آ گئیں اور صبح کی نماز اپنے ڈیرے پر ادا کی۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں یہ عمل کیا کرتے تھے۔ [3] ایسا کرنا جائز ہے لیکن افضل یہ ہے کہ وہ طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں، جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور افراد کو رات کے وقت ہی مزدلفہ سے منیٰ روانہ کر دیا تھا لیکن انہیں حکم دیا تھا کہ وہ طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں۔[4] ہمارے نزدیک راجح یہ ہے کہ فجر سے پہلے کنکریاں نہیں مارنا چاہئیں، البتہ کوئی عذر یا ضعیف و ناتواں بوڑھے یا خواتین کو اجازت ہے کہ وہ فجر سے پہلے رات میں بھی کنکریاں مار لیں۔ اگرچہ ان کے لیے بھی افضل اور بہتر ہے کہ وہ طلوع آفتاب کے بعد کنکریاں ماریں۔ (واللہ اعلم) جمرہ عقبہ کو جوتے مارنا سوال حج کے موقع پر اکثر دیکھا جاتا ہے کہ جمرہ عقبہ (بڑے شیطان) کو کنکریاں مارنے کی بجائے بڑے بڑے پتھر یا جوتے مارے جاتے ہیں، بعض لوگ وہاں تھوکتے ہیں اور گالیاں دیتے ہیں، کیا کنکریاں مارتے وقت ایسا کرنا جائز ہے؟
[1] مسند امام احمد، ص: ۳۷۰، ج۱۔ [2] صحیح بخاری، الحج: ۱۷۶۱۔ [3] ابوداود، المناسک: ۱۹۴۳۔ [4] ابوداود، الناسک: ۱۹۴۱۔