کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 21
اسے اشارۃ النص کہا جاتا ہے۔
٭ نص کی عبارت ازخود کسی دوسرے حکم کی طرف راہنمائی کرے، جیساکہ والدین کے متعلق ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿فَلَا تَقُلْ لَّهُمَاۤ اُفٍّ ﴾1
’’انہیں اُف تک نہ کہو۔‘‘
والدین کو اف نہ کہنے کے الفاظ میں ایک دوسرے حکم کی راہنمائی موجود ہے کہ والدین کو مارنا، پیٹنا بالاولیٰ حرام ہے۔ اسے فقہی اصطلاح میں دلالۃ النص کہا جاتا ہے۔
٭ نص کے الفاظ کسی ایسے معنی کا تقاضا کریں جسے تسلیم کیے بغیر نص کا مفہوم متعین نہ ہو سکے، جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿ حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ اُمَّهٰتُكُمْ﴾2
’’تم پر تمہاری مائیں حرام ہیں۔‘‘
اس نص کے الفاظ تقاضا کرتے ہیں کہ اس سے مراد حرمت نکاح ہے، اسے تسلیم کیے بغیر نص کا معنی متعین نہیں تھا، اسے اقتضاء النص کہتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا منشا یہ ہے کہ احکام و افتاء کے لیے رائے زانی یا قیاس کا بے دریغ استعمال درست نہیں بلکہ اگر کسی خاص حکم یا فتویٰ کے لیے کوئی نص نہیں ملتی تو اسے عمومی طور پر کسی دوسری منصوص چیز کے حکم میں داخل کیا جا سکتا ہے، اس اسلوب و انداز میں مفتیانِ کرام کے لیے راہنمائی ہے کہ وہ بھی فتویٰ دیتے وقت ان اصولوں کو مد نظر رکھا کریں، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان سے پتہ چلتا ہے کہ رائے کی دو اقسام ہیں:
٭ ایک رائے مذموم کہ مسائل کے استنباط و اثبات میں خواہ مخواہ عقل و قیاس سے کام لیا جائے۔
٭ دوسری رائے محمود، اس سے وہ عقل و بصیرت مراد ہے جس کے ذریعے ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال سے بذریعہ عبارت و اشارہ احکام و مسائل ثابت کرتے ہیں استنباط احکام کے اصول و ضوابط اس قسم کی رائے محمود کے تحت سر انجام پاتے ہیں۔ 3
ہم درج بالا حقائق کے پیش نظر کہتے ہیں کہ مفتی کو فتویٰ دیتے وقت درج ذیل دو باتوں کو ہمیشہ ذہن میں رکھنا چاہیے، ان سے وہ سر موانحراف نہ کرے۔
٭ مصدر فتویٰ: فتویٰ کا مأخذ کیا ہو؟ وہ صرف کتاب و سنت ہے، اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز فتویٰ بلکہ دین کا مصدر نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے:
’’میں تمہارے پاس دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں، جب تک تم اسے مضبوطی سے پکڑے رکھو گے ہرگز گمراہ نہ ہو گے، ایک اللہ کی کتاب، دوسری اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت۔‘‘ 4