کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 209
7) فی سبیل اللہ: اللہ کے راستے میں خرچ کرنا جس سے مقصود اللہ کے کلمہ کو بلند کرنا ہو۔ 8) ابن السبیل: مسافرانسان کو دورانِ سفر ضروریات پورا کرنے کے لیے زکوٰۃ دی جا سکتی ہے۔ قرآن کریم کے انداز سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوٰۃ صرف انہی مصارف پر خرچ کی جا سکتی ہے جیسا کہ آغاز میں کلمہاِنَّمَاسے معلوم ہوتا ہے۔ ان مصارف میں مریض شخص شامل نہیں ہے۔ ہمارے ہاں عام طور پر مریض کو بھی زکوٰۃ کا مستحق خیال کیا جاتا ہے پھر اس بنا پر ہسپتالوں کو زکوٰۃ دی جاتی ہے، جب کہ مرض کی بناء پر زکوٰۃ کا کوئی استحقاق نہیں ہے۔ چنانچہ ایسا مریض جو صاحب استطاعت ہو اس پر زکوٰۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے، چنانچہ حدیث میں ہے: ’’زکوٰۃ میں مالدار آدمی کا کوئی حق نہیں اور نہ ہی کسی طاقتور، کمائی کی صلاحیت رکھنے والے کے لیے استعمال کرنا جائز ہے۔‘‘ [1] ان خیراتی ہسپتالوں میں مال زکوٰۃ کو غریب لوگوں کے علاج تک محدود نہیں رکھا جاتا بلکہ وہ لوگ بھی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے ہیں جو صاحب حیثیت یا با اثر ہوتے ہیں، چونکہ ادویات امیر و غریب کے امتیاز کے بغیر ہر مریض کو دی جاتی ہیں لہٰذا ایسے ہسپتالوں کو زکوٰۃ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح درج ذیل مدات میں مال کی زکوٰۃ استعمال کرنا بھی محل نظر ہے۔ 1) ہسپتالوں کے لیے جگہ خریدنا اور عمارت تعمیر کرنا۔ 2) ادویات خریدنا اور علاج کے لیے آلات فراہم کرنا۔ 3) ٹیسٹ لیبارٹری کا اہتمام کرنا۔ 4)مریضوں کو لانے اور گھر پہنچانے کے لیے ایمبولینس لینا۔ 5) بے سہارا اور لا وارث لوگوں کے لیے کفن و دفن کا اہتمام کرنا۔ بہرحال زکوٰۃ کا اولین مستحق فقیر یا مسکین شخص ہے، ایسے خیراتی ہسپتال جو صرف فقراء کے علاج کے لیے مخصوص ہوں اور یا مال زکوٰۃ سے صرف غرباء کا علاج کیا جاتا ہو، ایسے ہسپتالوں کو زکوٰۃ دی جا سکتی ہے بشرطیکہ صرف ادویات وغیرہ خریدی جائیں لیکن جہاں امراء ترجیحی طور پر فائدہ اٹھاتے ہوں وہاں زکوٰۃ دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الزکوٰۃ: ۱۳۱۹۔