کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 206
تجارتی اموال میں سال گزرنے پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ 3) شرح زکوٰۃ میں بھی فرق ہے کیونکہ اگر کھیتیاں اورباغات قدرتی چشمہ یا بارش کے پانی سے سیراب ہوں تو اس میں عشر یعنی دسواں حصہ اور اگر انہیں مصنوعی طریقوں سے سیراب کیا جائے تو اس میں نصف عشر یعنی بیسواں حصہ زکوٰۃ دینا ہو گی، جب کہ تجارتی اموال میں چالیسواں حصہ یعنی اڑھائی فیصد زکوٰۃ دی جاتی ہے جیسا کہ احادیث میں اس کی وضاحت ہے، چنانچہ زرعی زکوٰۃ کی شرح صحیح بخاری حدیث نمبر ۱۴۸۳ اور تجارتی زکوٰۃ کی شرح صحیح بخاری، حدیث نمبر ۱۴۴۷ میں بیان ہوئی ہے۔ تجارتی زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ نصاب تک پہنچ جائے۔ اس سلسلہ میں کچھ اجناس کو خاص کرنا درست نہیں کیونکہ قرآن وحدیث میں زکوٰۃ کو خاص اجناس تک محدود رکھنے کے متعلق کوئی صحیح اور صریح دلیل موجود نہیں ہے بلکہ درج ذیل دلائل کے عموم کا تقاضا ہے کہ ہر قسم کی زمینی پیداوار سے زکوٰۃ دی جائے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ ﴾[1] ’’اس چیز میں سے خرچ کرو جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالی ہے۔‘‘ 1) ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ﴾[2]’’کھیتی کٹنے کے دن اس کا حق ادا کرو۔‘‘ 2) رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’وہ زمین جسے آسمانی پانی یا قدرتی چشمے سیراب کریں، اس کی پیداوار میں دسواں حصہ اور جسے کنویں سے پانی کھینچ کر سیراب کیا جاتا ہو اس کی پیداوار سے بیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ [3] ان آیات واحادیث میں کسی خاص جنس کا ذکر نہیں ہے بلکہ زمین کی ہر پیداوار پر زکوٰۃ دینے کی صراحت ہے بشرطیکہ وہ مقدار نصاب تک پہنچ جائے، البتہ کچھ اہل علم نے زرعی زکوٰۃ کو خاص اجناس تک محدود کیا ہے مثلاً گندم، جو، منقیٰ اور کھجور وغیرہ سے زکوٰۃ لی جائے اور کچھ حضرات کا کہنا ہے کہ ہر اس جنس سے زکوٰۃ لی جائے جو بطور غذا استعمال ہوتی ہے اور اس کا ذخیرہ بھی کیا جا سکتا ہو، ان کے نزدیک پھلوں اور ترکاریوں میں زرعی زکوٰۃ نہیں، اسی طرح گنے کی فصل میں بھی زرعی زکوٰۃ کے بجائے تجارتی زکوٰۃ لینے کے قائل ہیں بشرطیکہ اس کی مجموعی قیمت نصاب کو پہنچ جائے، ان کے دلائل اور ان پر ہمارا تبصرہ حسب ذیل ہے: ٭ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں حکم دیا تھا، جب انہیں یمن میں لوگوں کو دین سکھانے کے لیے روانہ کیا، آپ نے فرمایا: ’’جو، گندم، منقیٰ اور کھجور۔ ان چار اجناس کے علاوہ کسی دوسری جنس سے زکوٰۃ وصول نہ کرنا۔‘‘ [4] سنن ابن ماجہ میں پانچ اصناف کا ذکر ہے، مذکورہ چار کے علاوہ اس میں مکئی کا بھی ذکر ہے یعنی ان پانچ اصناف سے زکوٰۃ لی جائے۔ [5] لیکن یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس میں محمد بن عبداﷲ خزرجی راوی ضعیف ہے جیسا کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے وضاحت کی ہے۔[6]
[1] ۲/البقرہ: ۲۶۷۔ [2] ۶/الانعام: ۱۴۲۔ [3] بخاری، زکوٰۃ: ۱۴۸۳۔ [4] مستدرک حاکم، ص: ۴۰۱، ج۱۔ [5] سنن ابن ماجہ، الزکوٰۃ: ۱۸۱۵۔ [6]