کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 205
کس پیداوار سے ادا کرنا ہے؟ قرآن وحدیث کی روشنی میں اس کی وضاحت کریں۔ جواب:کتاب وسنت میں دو قسم کی زکوٰۃ کا ذکر ہوا ہے، ایک تجارتی زکوٰۃ اور دوسری زرعی زکوٰۃ، اگرچہ کچھ معاصرین نے صنعتی زکوٰۃ کو الگ قسم قرار دیا ہے تاہم یہ تجارت ہی کا ایک شعبہ ہے، اس سلسلہ میں قرآن کریم کی درج ذیل آیات بنیادی حیثیت رکھتی ہیں: 1) ﴿ يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْفِقُوْا مِنْ طَيِّبٰتِ مَا كَسَبْتُمْ وَ مِمَّاۤ اَخْرَجْنَا لَكُمْ مِّنَ الْاَرْضِ١۪ ﴾[1] ’’اے ایمان والو! جو کچھ تم نے کمایا ہے اور جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین میں سے نکالا ہے، اس میں سے اچھی چیزیں اس اﷲ کی راہ میں خرچ کرو۔ ‘‘ اس آیت کریمہ سے معلوم ہواکہ جیسے اموال صنعت وتجارت میں زکوٰۃ فرض ہے ویسے ہی زمین کی پیداوار میں بھی فرض ہے۔ 2) ﴿وَ هُوَ الَّذِيْۤ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَيْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُكُلُهٗ وَالزَّيْتُوْنَ وَالرُّمَّانَ مُتَشَابِهًا وَّ غَيْرَ مُتَشَابِهٍ كُلُوْا مِنْ ثَمَرِهٖۤ اِذَاۤ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّهٗ يَوْمَ حَصَادِهٖ١ۖ ﴾ [2] ’’وہی تو ہے جس نے چھتوں اور بغیر چھتوں کے باغات پیدا کیے نیز کھیتیاں اور کھجوریں پیدا کیں، جن سے کئی طرح کے ماکولات حاصل ہوتے ہیں اور اس نے زیتون اور انار پیدا کیے جن کے ذائقے ملتے جلتے بھی ہیں اور مختلف بھی، جب یہ درخت پھل لائیں تو ان سے خود بھی کھاؤ اور فصل اٹھاتے وقت ان میں اﷲ کا حق بھی ادا کرو۔‘‘ 1) زرعی زکوٰۃ کے لیے پیداوار کا پانچ وسق یا اس سے زیادہ ہونا شرط ہے، ایک وسق ساٹھ صاع کا ہوتا ہے گویا زرعی پیداوار کا نصاب ۳۰۰ صاع ہے، جدید اعشاری نظام کے مطابق ایک صاع ۲ کلو اور ۱۰۰ گرام کا ہوتا ہے، اس حساب سے پانچ وسق میں چھ صدتین کلو گرام وزن بنتا ہے، اس سے کم مقدار پر زکوٰۃ دینا ضروری نہیں کیونکہ اس سے کم پیداوار تو کاشتکار یا زمیندار کے گھر کا سالانہ خرچ تصور کیا جائے گا، جب کہ تجارتی زکوٰۃ کے لیے سرمایہ کا پانچ اوقیہ چاندی کے برابر ہونا ضروری ہے یہ چاندی ساڑھے باون تولے ہوتی ہے، اس سے کم مالیت میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’پانچ وسق کھجور سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے اور پانچ اوقیہ سے کم چاندی میں زکوٰۃ نہیں ہے۔‘‘ [3] 2) زرعی زکوٰۃ میں پیداوار پر سال گزرنے کی شرط نہیں ہے بلکہ جب بھی فصل کاٹی جائے یا پھل توڑا جائے تو اسی وقت زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے جیسا کہ درج بالا آیت میں ہے لیکن تجارتی زکوٰۃ کے لیے سرمایہ پر سال گزرنا ضروری ہے جیسا کہ حدیث میں ہے: رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی مال میں بھی اس وقت تک کوئی زکوٰۃ نہیں جب تک اس پر ایک سال نہ گزر جائے۔ [4] یہ امر انتہائی عدل پر مبنی ہے اگر اس کا وجوب ہر ماہ ہر ہفتہ میں ہوتا تو اس سے اغنیاء کو نقصان ہوتا اور اگر زکوٰۃ کا وجوب زندگی میں ایک مرتبہ ہوتا تو اس سے مساکین خسارے میں رہتے، اس بنا پر اﷲ تعالیٰ نے کھیتوں اور پھلوں کے صحیح طور پر پختہ ہونے پر اور
[1] ۲/البقرۃ: ۲۶۷۔ [2] ۶/الانعام: ۱۴۱۔ [3] صحیح بخاری، الزکوٰۃ۔ [4] بیہقی، ص: ۹۵، ج۴۔