کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 203
شرعی حیثیت کیا ہے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب:زکوٰۃ کے متعلق ضابطہ یہ ہے کہ جس کی کفالت کسی کے ذمہ ہو اس پر زکوٰۃ صرف نہیں کی جا سکتی مثلاً باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کفالت کرے، ان میں زکوٰۃ صرف نہیں ہو سکے گی، اسی طرح خاوند پر بیوی کا نان ونفقہ واجب ہے، لہٰذا وہ اپنی بیوی کو زکوٰۃ نہیں دے سکتا البتہ بیوی اپنے ضرورت مند اور غریب خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے چنانچہ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی نے جب اپنے زیورات کی زکوٰہ دینے کا ارادہ کیا تو حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے خود کو اور اپنے بچوں کو زکوٰۃ کا زیادہ حقدار پایا، اس پر ان کی بیوی نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ٹھیک کہا ہے، تیرا شوہر اور اس کی اولاد تیری زکوٰۃ کے زیادہ حقدار ہیں۔‘‘ [1] جب زکوٰۃ حقدار کو مل جاتی ہے تو اس کی حیثیت بدل جاتی ہے، زکوٰۃ لینے والا اسے جہاں چاہے صرف کر سکتا ہے، صورت مسؤلہ میں بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکتی ہے اگرچہ بیوی نے اسی گھر سے کھانا ہوتا ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ زکوٰۃ کی حیثیت تبدیل ہو چکی ہے، یہ خود پر زکوٰۃ صرف کرنا نہیں، لیکن یہ بات یاد رہے کہ محتاج ہونے کی صورت میں ہی بیوی اپنے خاوند کو زکوٰۃ دے سکے گی بصورت دیگر ایسا کرنا جائز نہیں ہو گا۔ (واﷲ اعلم) بیٹیوں کے زیورات پر زکوٰۃ سوال:ایک شخص کی دو بیٹیاں ہیں، اس نے دونوں کے لیے آٹھ تولے کا زیور بنا کر رکھا ہوا ہے یعنی ہر ایک کے لیے چارچار تولے، کیا ایسے زیور پر زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے؟ جواب:اگر اس نے زیور بنا کر اپنے پاس رکھا ہے تو اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ وہ ابھی تک اس کی ملکیت میں ہے اور وہ زیور نصاب کو پہنچ چکا ہے اور اگر اس نے اپنی بیٹیوں کو عاریتاً دیا ہے۔ تب بھی اس سے زکوٰۃ ادا کرنا ہو گی کیونکہ اس صورت میں بھی وہ اس زیور کا مالک ہے، ہاں اگر اس نے وہ زیور مستقل طور پر اپنی بیٹیوں کو دے دیا ہے اور انہیں اس کا مالک بنا دیا ہے تو اس صورت میں اس پر زکوٰۃ نہیں ہے کیونکہ اب وہ اس کی ملکیت سے نکل چکا ہے اور جن کی ملکیت میں آیا ہے وہ انفرادی طور پر نصاب سے کم ہے اور چارتولہ زیور میں زکوٰۃ فرض نہیں ہے، یادرہے کہ بطور حیلہ زکوٰۃ سے بچنے کے لیے وہ زیور اپنی بیٹیوں کو نہ دیا جائے جبکہ وہ اس کی ضرورت مند بھی نہیں ہیں، ایسا کرنا گناہ ہے اور شریعت میں اس کی گنجائش نہیں۔ (واﷲ اعلم) بینک میں جمع شدہ رقم پر زکوٰۃ سوال:میں نے تقریباً پچاس ہزار روپیہ بینک میں جمع کروا رکھا ہے، ضرورت کے مطابق رقم نکلواتا اور جمع کرواتا رہتا ہوں، اس رقم پر مجھے کچھ منافع دیا جاتا ہے کیا اسے استعمال کیا جا سکتا ہے؟ اور زکوٰۃ کے متعلق کیا اصول ہے کیا صرف منافع پر ہو گی یا منافع اور اصل رقم دونوں پر؟ کتاب وسنت کی روشنی میں تفصیل سے جواب دیں۔
[1] بخاری، الزکوٰۃ: ۱۴۶۲۔