کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 201
موجودہ دور میں زکوٰۃ کے لیے سونے چاندی کا نصاب کیا ہے؟ سوال:موجودہ دور میں زکوٰۃ کے لیے سونے چاندی کا نصاب کیا ہے، کیا ان کی زکوٰۃ میں قیمت دی جا سکتی ہے یا سونا چاندی ہی دینا ہو گا؟ جواب:چاندی کا نصاب کم از کم پانچ اوقیہ ہے [1] ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اس طرح دوصد درہم سے کم میں زکوٰۃ نہیں، ایک درہم کا وزن 2.97 گرام ہے، اس طرح دو صد درہم کا وزن ۵۹۴ گرام ہے، اس سے کم مقدار میں زکوٰۃ نہیں ہے۔ اسی طرح سونے کے متعلق حدیث میں ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بیس دینار سے نصف دینار اور چالیس دینار سے ایک دینار بطور زکوٰۃ وصول کرتے تھے۔[2] تولہ، ماشہ کے اعتبار سے چاندی کا نصاب ساڑھے باون تولے اور گرام کے لحاظ سے ۵۹۴ گرام ہے، سونے کانصاب ساڑھے سات تولہ اور گرام کے لحاظ سے ۸۵گرام ہے، اس نصاب پر چالیسواں حصہ یا اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینی ہوتی ہے، جس قدر مقدار زکوٰۃ دینی پڑے اس کی قیمت بھی موجود ریٹ کے لحاظ سے دی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ سونا چاندی ڈھیلے کی شکل میں ہو یا زیورات کی صورت میںہوں، ان میں زکوٰۃ فرض ہو گی، اسی طرح کاغذی نوٹ بھی سونے چاندی کے حکم میں ہیں، جس شخص کے پاس سونے یا چاندی کے نصاب کی قیمت کے برابر یا اس سے زیادہ کرنسی نوٹ ہوں، ان پر سال گزرچکا ہو اور وہ ضروریات سے فاضل ہوں تو ان پر زکوٰۃ دینا ہو گی۔ شرائطِ زکوٰۃ سوال:مال سے زکوٰۃ ادا کرنے کی کیا شرائط ہیں، انسان کو کب اپنے مال سے زکوٰۃ ادا کرنا ضروری ہوتا ہے؟ قرآن وحدیث کے مطابق فتویٰ دیں۔ جواب:زکوٰۃ کے لیے پہلی شرط یہ ہے کہ وہ مال کسی مسلمان کا ہو، کیونکہ کافر کے مال پر زکوٰۃ واجب نہیں ہے، اگر وہ ادا بھی کرے تواس سے زکوٰۃ قبول نہ کی جائے، البتہ آخرت میں اس کے متعلق اس سے ضرور بازپرس ہو گی، دوسری شرط یہ ہے کہ وہ مال کسی مسلمان کی ملکیت میں ہے، کیونکہ ادھار لیا ہوا مال اس کی ملکیت نہیں، لہٰذا وہ اس سے زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا ہاں جس کا مال ہے اس نے اگرچہ کسی دوسرے کو قرض دیا ہے لیکن وہ ادھار دیے ہوئے مال کی خود زکوٰۃ ادا کرے گا، تیسری شرط یہ ہے کہ وہ مال نصاب کو پہنچ جائے، شریعت میں مختلف اموال کا مختلف نصاب ہے اگر کسی مسلمان کے پاس بقدر نصاب مال نہ ہو تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں، کیونکہ مالِ قلیل ہے جو ہمدردی اور خیرخواہی کا متحمل نہیں ہو سکتا، چوتھی اور آخری شرط یہ ہے کہ اس پر سال گزر جائے، اگر سال ختم ہونے سے پہلے پہلے مال ختم ہو گیا تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے، اسی طرح اگر سال سے پہلے مال تلف یا چوری ہو گیا تو بھی اس سے زکوٰۃ ساقط ہے، البتہ تین چیزیں سال کی شرط سے مستثنیٰ ہیں۔
[1] صحیح بخاری، الزکوٰۃ: ۱۴۴۷۔ [2] ابن ماجہ، الزکوٰۃ: ۱۷۹۱۔