کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 20
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس سے پاکی حاصل کرو۔‘‘ اس نے پھر عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اس کے ساتھ پاکی کیسے حاصل کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ اس سے پاکی حاصل کر۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا کو معلوم کر لیا، چنانچہ میں نے اس عورت کو اپنی طرف کھینچ کر اسے طریقہ سکھا دیا۔ [1]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ عقل و بصیرت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی غرض کو سمجھ گئیں کہ اس سے مراد اسے اپنے بدن پر پھیر کر اس سے پاکی حاصل کرنا ہے، چنانچہ دوسری حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حیا کی وجہ سے منہ دوسری طرف کر لیا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ مشک لگا ہوا روئی کا ٹکڑا لے کر جہاں جہاں خون کے نشانات ہیں وہاں لگا دو تاکہ ناگواری کے اثرات ختم ہو جائیں۔ [2]
حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
سوال کرنے والی عورت کو اس بات کا علم نہ تھا کہ خون کے نشانات پر خوشبودار روئی کا ٹکڑا پھیرنا وضو کہلاتا ہے، جبکہ اس کے ساتھ خون اور ناگواری کا ذکر ہو، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی طبعی حیا داری کی وجہ سے صراحت نہ کی، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے اپنی عقل و بصیرت کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد کو سمجھ لیااور اسےبتا دیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خاموشی سے اس کی تائید بھی کر دی، اس قسم کی راہنمائی کو دلالتِ عقلیہ سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ [3]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے عنوان میں دلالت کے معنی اور اس کی تفسیر کا بھی ذکر کیا تھا، تفسیر کا معنی یہ ہے کہ مکلف و مأمور کو جو حکم دیا گیا ہے اس کی تشریح اس طرح کر دی جائے کہ مامور اس پر عمل کر سکے، جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے درج بالا حدیث میں لفظ ’’توضیٔ‘‘ کی وضاحت کی ہے، دراصل امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اس عنوان اور پیش کردہ احادیث سے یہ مقصود ہے کہ قرآن و حدیث کی نصوص سے احکام معلوم کرنے کے کئی ایک طریقے ہیں، محدثین کرام نے عام طور پر چار طریقوں کی نشاندہی کی ہے جو حسب ذیل ہے:
٭ نص کی عبارت ہی کسی حکم کو بیان کرتی ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ﴾[4]
’’جھوٹی گواہی سے اجتناب کرو۔‘‘
اس نص کی عبارت سے ہی پتہ چلتا ہے کہ جھوٹی گواہی دینا حرام ہے۔ اسے عبارۃ النص کہتے ہیں۔
٭ نص کے الفاط میں کسی دوسرے حکم کا اشارہ ملتا ہو جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
﴿وَ شَاوِرْهُمْ فِي الْاَمْرِ١ۚ﴾[5]
’’آپ ان سے مشورہ کریں۔‘‘
اس نص کی عبارت میں اشارہ ہے کہ امتِ مسلمہ میں مجلس مشاورت ہونی چاہیے جس سے اہم معاملات میں مشورہ کیا جا سکے
[1] صحیح بخاری، الاعتصام: ۷۳۵۷
[2] صحیح بخاری، الحیض: ۳۱۴۔
[3] فتح الباری،ص: ۴۰۵،ج۱۳ـ
[4] ۲۲/الحج: ۳۰۔
[5] ۳/آل عمران: ۱۵۹۔