کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 197
اﷲ تعالیٰ اسے معاف فرمائے گا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ مَا كُنَّا مُعَذِّبِيْنَ حَتّٰى نَبْعَثَ رَسُوْلًا﴾[1] ’’اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔‘‘ اس آیت کریمہ میں جہالت کو بطور عذر پیش کیا گیا ہے، اس بنا پر امید ہے کہ اﷲ تعالیٰ ایسے شخص سے مؤاخذہ نہیں کریں گے جس نے لاعلمی کی وجہ سے فریضۂ زکوٰۃ نظر انداز کیے رکھا۔ (واﷲ اعلم) یتیم بچوں کے مال سے زکوٰۃ دینا سوال میرا بھائی فوت ہوا اور اس کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور ان بچوں کو اپنے باپ کی جائیداد نقدی کی شکل میں ملی ہے کیا اس نقدی میں سے زکوٰۃ دینا فرض ہے؟ جواب زکوٰۃ دینامال کا حق ہے۔ یہ حق کسی چھوٹے یا بڑے سے ساقط نہیں ہوتا، اگر یتیم بچوں کا مال نصاب کو پہنچ چکا ہے تو اس پر سال گزرنے کے بعد زکوٰۃ فرض ہے بشرطیکہ وہ ضروریات سے زائد ہوقرآن کریم میں ہے: ﴿ خُذْ مِنْ اَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ ﴾[2] ’’آپ ان کے اموال میں سے زکوٰۃ لیں جس کے ذریعے آپ انہیں پاک کریں۔‘‘ اسی طرح حدیث میں ہے کہ زکوٰۃ اغنیاء سے لی جائے گی۔ [3] یہ حکم عام ہے وہ غنی بالغ ہو یا نابالغ، دونوں کو شامل ہے۔ اس بنا پر یتیم بچوں کے مال پر بھی زکوٰۃ واجب ہے اور اس کی ادائیگی ان کا سرپرست کرے گا۔ (واﷲ اعلم) صدقۂ فطر کی مقدار اور اوقات سوال:صدقۂ فطر کیوں ادا کیا جاتا ہے، اس کی کتنی مقدار ہے، کیا اس کی قیمت دینا بھی جائز ہے؟ کتاب وسنت سے جواب دیں۔ جواب:صدقہ فطر ادا کرنے میں شریعت نے یہ حکمت رکھی ہے کہ اس کی ادائیگی سے غریب لوگوں کے کھانے کا بندوبست ہو جاتا ہے اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ روزہ کے دوران جو لغویات یا بے ہودہ اقوال وافعال سرزد ہو جاتے ہیں، ان کا کفارہ بن جاتا ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدقۂ فطر فرض قرار دیا ہے، اس سے روزہ دار ان لغویات اور بے حیائی پر مبنی اقوال وافعال کے گناہ سے پاک ہو جاتا ہے جو اس سے دوران روزہ سرزد ہوتے ہیں اور مساکین کے لیے کھانے کا بندوبست بھی ہو جاتا ہے۔ [4] اس کی مقدار ایک صاع ہے جو اشیاء خوردنی سے ادا کی جائے، رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فطرانہ غلام پر بھی، آزاد پر بھی، مرد پر بھی
[1] ۱۷/بنی اسرائیل: ۱۵۔ [2] ۹/التوبۃ: ۱۰۳۔ [3] صحیح بخاری: ۱۳۹۵۔ [4] ابو داود، الصوم: ۱۶۰۹۔