کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 194
٭ ان تمام دلائل سے معلوم ہوا کہ سونا اور چاندی دونوں قسم کے زیورات میں زکوٰۃ ہے، اس سلسلہ میں ایک حدیث پیش کی جاتی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زیور میں زکوٰۃ نہیں۔‘‘ [1] لیکن اس کی سند انتہائی کمزور ہے، اس بنا پر بہت سے علماء نے اسے ناقابل حجت ٹھہرایا ہے۔ حج کے لیے جمع شدہ رقم سے زکوٰۃ دینا سوال :میں نے حج کے لیے حکومت کی حج سکیم میں رقم جمع کرائی تھی۔ قرعہ اندازی میں میرا نام نہیں آیا جس کی وجہ سے میری رقم مجھے واپس مل گئی ہے، اب کیا مجھے اس سے زکوٰۃ ادا کرنی چاہیے یانہیں، قرآن وحدیث کی روشنی میں فتویٰ درکار ہے۔ جواب: زکوٰۃ، دین اسلام کا تیسرا رکن ہے، صاحب استطاعت انسان پر زکوٰۃ فرض ہے، فرضیت زکوٰۃ کی تین شرائط حسب ذیل ہیں: ٭ وہ رقم ضروریات سے زائد ہو۔ اگر کوئی ضرورت کے لیے ہے تو اس پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ ٭ وہ رقم نصاب کو پہنچ جائے، اگر نصاب سے کم سرمایہ ہے تو اس پر بھی زکوٰۃ فرض نہیں ہے زکوٰۃ کا نصاب ساڑھے سات تولے (۸۵ گرام) سونا، یا ساڑھے باون تولے چاندی ہے۔ ٭ اس زائد ضرورت رقم پر سال گزرجائے۔ سال سے پہلے پہلے کسی قسم کی رقم پر زکوٰۃ فرض نہیں ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل نے وہ رقم حج کے لیے رکھی تھی بلکہ وہ حکومت کی حج اسکیم میں جمع کرا دی تھی، اب اگر قرعہ اندازی میں نام نہیں نکلا تو اس سے ضرورت ختم نہیں ہو جاتی، بلکہ اس کامصرف بدستور قائم ہے کہ اسے حج کے لیے استعمال کرنا ہے، اس لیے حج کے لیے مختص کی جانے والی رقم میں زکوٰۃ نہیں ہے ہاں اگر کوئی اس سے زکوٰۃ دینا چاہے تو اس کارخیر پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ (واﷲ اعلم) مصرف زکوٰۃ سوال:ایک تنگدست آدمی، کسی مالدار دوست سے دوسروں میں تقسیم کرنے کے لیے زکوٰۃ وصول کرتا ہے تو کیا اسے زکوٰۃ خود استعمال کرنے کی شرعاً اجازت ہے؟ براہ کرم کتاب وسنت کی روشنی میں اس کا جواب دیا جائے۔ جواب: وکیل کے لیے جائز نہیں ہے کہ وہ مال زکوٰۃ کو اپنے لیے استعمال کرے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دوست کو بتائے کہ وہ خود اس کا محتاج ہے اگر وہ اجازت دے تو اپنے استعمال میں لائے اگر وہ اجازت نہ دے تو اسے آگے تقسیم کردے، اس کی اجازت کے بغیر مال زکوٰۃ کو خود استعمال کر لیا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنی طرف سے اس کی ادائیگی کرے اور اسے دوسرے غرباء میں تقسیم کرے، بعض لوگ ایسے بھی سامنے آتے ہیں کہ لوگ انہیں محتاج سمجھ کر زکوٰۃ دیتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس مال زکوٰۃ اس قدر جمع ہو چکا ہے کہ وہ تنگ دستی کے دائرہ سے نکل چکے ہوتے ہیں اور اﷲ تعالیٰ نے غنی کر دیا ہوتا ہے لیکن لوگ انہیں حقیر سمجھ کر زکوٰۃ بدستور دیتے رہتے ہیں اور وہ بھی حسب معمول وصول کرتے رہتے ہیں اور وہ اسے اپنے استعمال میں لاتے
[1] دارقطنی، ص: ۱۰۶، ج۲۔