کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 19
٭ وہ صرف قرآن وحدیث اور اقوال صحابہ کی روشنی میں جواب دیتے ہیں اگر ان کے پاس کتاب و سنت پر مبنی کوئی دلیل نہیں ہوتی تو خاموشی اختیار کرتے ہیں۔
٭ جب کتاب و سنت سے ان کے پاس کوئی دلیل ہوتی ہے تو اس کے مطابق جواب دیتے ہیں بصورت دیگر وہ اشباہ و نظائر پر غور و خوض کر کے عقل و قیاس سے جواب دیتے ہیں، یہ دونوں اقسام قابل ستائش اور لائق تعریف ہیں۔
٭ وہ قرآن و حدیث پر غور و فکر کرنے کے بجائے اپنی رائےاور عقل کو استعمال کرتے ہوئے فرضی مسائل کے ڈھیر لگا دیتے ہیں۔
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے اس آخری قسم کی تردید کی ہے۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے صحابہ کرام بھی فتویٰ دینے میں بہت احتیاط کرتے اور جلد بازی کا مظاہرہ نہ کرتے تھے چنانچہ امام عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلی رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بیان کیا ہے:
’’میں نے مسجد نبوی میں ایک سو بیس صحابہ کرام کا دیدار کیا، فتویٰ دینے میں ان حضرات کے احتیاط کا یہ عالم تھا کہ ان میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی کہ اس کے بجائے کوئی دوسرا افتاء کے فرض سے عہدہ برآ ہو۔‘‘ [2]
اللہ تعالیٰ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے کہ انہوں نے اس امت کے مفتیان کرام کے سامنے کتاب و سنت سے تمسک کے راستے کھول دئیے ہیں چنانچہ انہوں نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔
’’وہ احکام جو دلائل سے معلوم کیے جاتے ہیں نیز دلالت کا معنی اور اس کی تفسیر کیا ہے۔‘‘ [3]
اس عنوان کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں کہ ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے متعلق فرمایا: ’’گھوڑے تین طرح کے لوگوں کے لیے ہیں، ایک شخص کے لیے ان کا رکھنا باعثِ ثواب، دوسرے کے لیے پردہ پوشی کا سبب اور تیسرے کے لیے وبال جان ہیں، پھر آپ سے گدھوں کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے درج ذیل آیت تلاوت فرمائی:
﴿ فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَّرَهٗ﴾[4]
’’جو ایک ذرہ برابر بھلائی کرے گا وہ اسے دیکھ لے گا۔‘‘
اس حدیث کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خاص چیز کے حکم کو عام کے تحت داخل فرمایا ہے یہ بھی کتاب و سنت سے تمسک کی ہی ایک صورت ہے، اس قسم کی دلالت کو دلالت شرعیہ کہتے ہیں اس کے بعد امام بخاری نے ایک دوسری حدیث بیان کی ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک عورت نے سوال کیا کہ حیض سے فراغت کے بعد غسل کیسے کیا جائے؟ تو آپ نےفرمایا: ’’مشک لگا ہوا روئی کا
ایک ٹکڑا لے کر اس سے پاکی حاصل کرو۔‘‘ اس نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس سے کیسے پاکی حاصل کروں؟ رسول
[1] فتح الباری، ص: ۳۵۷، ج۱۳۔
[2] اعلام الموقعین،ص: ۶۴،ج۱۔
[3] صحیح بخاری، الاعتصام، باب نمبر۲۴۔
[4] ۹۹/الزلزال:۷۔