کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 189
کٹی ہوئی لاش کو غسل دینا
سوال:ایک آدمی کا جسم کسی حادثہ میں بری طرح متاثر ہوا ہے اور اس کے جسم سے خون بہتا ہے، اگر وہ اسی حالت میں فوت ہو جائے تو کیا اسے غسل دینا ضروری ہے یا صرف تیمم ہی کروا دیا جائے، اور اگر جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو گیا ہو تو پھر غسل کی کیا صورت ہو گی؟
جواب:مسلمان میت کا یہ اکرام ہے کہ اسے غسل دے کر کفن پہنایا جائے، اگر جسم کسی حادثہ میں بری طرح متاثر ہو گیا ہے یا اس کے جسم سے خون بہتا ہے تو روئی وغیرہ سے اس کا خون صاف کیا جائے پھر اسے غسل دیا جائے اور زخموں پر روئی رکھ دی جائے تاکہ خون نکلنے سے کفن خراب نہ ہو، اگر جسم ٹکڑے ٹکڑے ہو چکا ہے تو بھی تمام اجزاء کو جمع کر کے ان پر پانی بہا دیا جائے، تیمم کی سہولت صرف زندہ انسانوں کے لیے ہے تاکہ انہیں تکلیف نہ ہو یا پانی لگنے سے زخم خراب ہونے کا اندیشہ ہو۔ میت کو بہرحال غسل ہی دینا چاہیے خواہ پانی بہا دینے کی شکل میں ہی ہو۔ ہاں البتہ اگر پانی میسر نہ ہو تو میت کو تیمم کروایا جا سکتا ہے۔
سینہ کو بی کرنا
سوال:مروجہ سینہ کوبی کی شرعی حیثیت واضح کریں، کیا کسی بھی لحاظ سے اس کی اجازت ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں جواب دیں۔
جواب:اگر کوئی مصیبت آئے یا کوئی عزیز فوت ہو جائے تو ہمیں صبر کرنے کا حکم ہے، رونے دھونے اور گریبان چاک کرنے کی اجازت نہیں، جیسا کہ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو بھی مصیبت کے وقت اپنے چہرے کو پیٹے، اپنا گریبان چاک کرے اور دور جاہلیت کی باتیں بکے وہ ہم سے نہیں ہے۔‘‘ [1]
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اس شخص سے بری ہوں جس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان برأت کیا ہے، بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مصیبت کے وقت اونچی آواز نکالنے والی، پریشانی کے وقت اپنے بال منڈوانے والی اور آفت کے وقت اپنے کپڑے پھاڑنے والی سے بری ہیں۔[2] حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نوحہ کرنے والی عورت اگر موت سے پہلے توبہ نہیں کرے گی تو قیامت کے دن اسے بایں حالت اٹھایا جائے گا کہ اس پر گندھک کا کرتا اور خارش کی قمیص ہو گی۔ [3]
ان احادیث کی روشنی میں مروجہ سینہ کوبی کی قطعاً اجازت نہیں ہے، اگر کسی کو مصیبت سے دو چار ہونا پڑے تو وہ اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے صبر سے کام لے۔ شاید اللہ تعالیٰ اس مصیبت کی تلافی کر دے جبکہ سینہ کوبی کرنے سے گناہ کے علاوہ کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ (واللہ اعلم)
[1] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۲۹۴۔
[2] صحیح مسلم، الایمان: ۱۰۴۔
[3] مسند امام احمد، ص: ۳۴۲،ج۵۔