کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 188
منگوایا، وضو کیا پھر ہاتھ اٹھائے اور دعا کی: ’’اے اللہ! ابو عامر عبید رضی اللہ عنہ کو معاف کر دے اور قیامت کے دن اسے بے شمار لوگوں پر برتری عطا فرما۔‘‘ [1]
اس روایت میں کوئی تعزیت کا موقع نہیں ہے بلکہ انہوں نے حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی اپیل کرنا، آپ نے ان کی وصیت پر عمل کرتے ہوئے ہاتھ اٹھا کر دعا فرمائی، اس حدیث سے تعزیت کے موقع پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا مسئلہ کشید کرنا محل نظر ہے۔ (واللہ اعلم)
میّت کا دوبارہ جنازہ پڑھنا
سوال:اگر میت کا دوبارہ جنازہ پڑھا جائے، کیا میت کے لواحقین دوبارہ جنازہ میں شامل نہیں ہو سکتے؟ اس کے متعلق قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت فرمائیں۔
جواب:ایک میت کا دوبارہ جنازہ پڑھا جا سکتا ہے۔ اس کے متعلق لواحقین اور غیر لواحقین کی تفریق خود ساختہ ہے، چنانچہ حدیث میں ہے کہ ایک عورت مسجد کی صفائی کیا کرتی تھی وہ فوت ہو گئی تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے اسے رات کے وقت ہی جنازہ پڑھ کر دفن کر دیا، جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا علم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی قبر پر جنازہ پڑھا اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنازہ ادا کیا، حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں بھی جنازہ میں شامل تھا۔ [2]
مذکورہ حدیث کے پیش نظر ایک میت کا دو مرتبہ جنازہ پڑھا جا سکتا ہے اور جو حضرات پہلے جنازہ پڑھ چکے ہیں، ان کے لیے دوبارہ جنازہ پڑھنے کی ممانعت احادیث میں مروی نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
دفن میں تاخیر کرنا
سوال:ہمارے معاشرہ میں میت کو دفن کرنے میں بلاوجہ تاخیر کی جاتی ہے، کسی عزیز اور قریبی رشتہ دار کے انتظار میں اسے دفن نہیں کیا جاتا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب:بلاوجہ جنازے میں تاخیر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلہ میں جلدی کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔ چنانچہ حضرت طلحہ بن براء رضی اللہ عنہ مرض موت میں مبتلا ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، ان کی حالت دیکھ کر فرمایا: ’’جب فوت ہو جائیں تو مجھے اس کی اطلاع کرنا اور اس کے دفن کرنے میں جلدی کرنا کیونکہ مسلمان کے مردہ جسم کو اس کے گھر والوں کے درمیان روکے رکھنا جائز نہیں ہے۔ [3]
بہرحال جب کوئی مسلمان فوت ہو جائے تو اس کے کفن و دفن میں بلاوجہ تاخیر کرنا شرعاً جائز نہیں ہے۔
[1] صحیح بخاری، المغازی: ۴۳۲۳۔
[2] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۳۲۱۔
[3] بیہقی،ص: ۳۸۶،ج۳۔