کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 185
ضروری ہے، بلکہ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے صراحت مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: ’’جب تم میت کو غسل دو تو تم پر غسل ضروری نہیں کیونکہ تمہارے مردے نجس نہیں ہوتے، اپنے ہاتھ دھو لو یہی کافی ہے۔‘‘ [1] حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میت کو غسل دیا کرتے تھے، اس کے بعد کوئی غسل کر لیتا اور کوئی نہیں کرتا تھا۔ [2] ان احادیث و آثار کے پیش نظر میت کو غسل دینے والے کے لیے ضروری نہیں کہ وہ خود بھی غسل کرے البتہ بہتر ہے کہ وہ غسل کر لے تاکہ شکوک و شبہات دور ہو جائیں۔ (واللہ اعلم) جنازہ اٹھاتے وقت بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھنا سوال:ہمارے ہاں جب جنازہ اٹھایا جاتا ہے تو کچھ لوگ باآواز بلند کلمہ شہادت کے الفاظ کہتے ہیں، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ پھر دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اذان دی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ایسا کرنے سے شیطان میت سے وسوسہ اندازی نہیں کر سکتا، کیا ایسا کرنا شرعی طور پر ثابت ہے؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب:بلاشبہ ہمارے معاشرہ میں کچھ کام ایسے رواج پا چکے ہیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ہے جیسا کہ سوال میں دو کاموں کا ذکر ہے، اس کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں بھی جنازہ اٹھایا جاتا تھا، لیکن حاضرین میں سے کوئی کلمہ شہادت کے الفاظ با آواز بلند نہیں کہتا تھا، اگر ایسا کرتا تو ضرور کتب حدیث میں اس کا ذکر ہوتا، اس طرح میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اذان دینے کا مسئلہ ہے۔ اس کے متعلق بھی کتاب و سنت سے کوئی ایسی دلیل نہیں ملتی جس سے اس امر کا جواز ثابت ہوتا ہو۔ باقی رہی شیطان کی وسوسہ اندازی تو وہ انسان کی زندگی تک محدود ہے، مرنے کے بعد اسے کسی کے متعلق وسوسہ اندازی کا اختیار نہیں ہے، قبر کے اندر فرشتوں کے سوالات کے جوابات ایمان کی بنیاد پر ہوں گے، وہاں شیطان کا قطعاً کوئی اختیار نہیں ہو گا کہ وہ غلط جوابات اس کی زبان سے جاری کراسکے، ہمارے نزدیک جنازہ لے جاتے وقت باآواز بلند کلمہ شہادت کے الفاظ کہنا اور میت کو دفن کرنے کے بعد قبر پر کھڑے ہو کر اذان دینا بدعت ہے، چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’جس نے ہمارے اس دین میں کسی نئے کام کو رواج دیا جو اس سے نہیں ہے، وہ مردود ہے۔‘‘ [3] ہمیں چاہیے کہ کتاب و سنت سے تمسک کریں، اس کے علاوہ دوسری ہر چیز کو چھوڑ دیں، اسی میں ہماری کامیابی اور عزت و ناموس کا تحفظ ہے۔ (واللہ اعلم) غیرمحرم آدمی کا عورت کے جنازے کو کندھا دینا سوال :غیر محرم آدمی کسی عورت کے جنازے کو کندھا دے سکتا ہے یا نہیں؟ کتاب و سنت کی رو سے اس کی وضاحت کریں؟ جواب :جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو اس کے جنازے کے ساتھ جانا اور اسے کندھا دینا، اس کا حق ہے جو دوسرے
[1] مستدرک حاکم، ص: ۳۸۶،ج۱۔ [2] تاریخ بغداد، ص: ۴۲۴، ج۵۔ [3] بخاری، الصلح: ۲۶۹۷۔