کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 180
اس طرح بیوی اپنے مرنے والے شوہر کو غسل دے سکتی ہے، مرنے کے بعد وہ اس کے لیے اجنبی نہیں بن جاتا کہ وہ اسے غسل نہ دے یا اس کا چہرہ نہ دیکھے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ’’اگر ہمیں پہلے اس چیز کا علم ہوتا جو بعد میں ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فوت ہونے کے بعد انہیں ان کی بیویاں ہی غسل دیتیں۔‘‘ [1]حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کو ان کی بیوی حضرت اسماء بنت عمیس رضی اللہ عنہا نے غسل دیا تھا۔ [2] درج بالا دلائل سے صراحت کے ساتھ معلوم ہوا کہ مرنے کے بعد بیوی، خاوند کے لیے اور خاوند اپنی بیوی کے لیے اجنبی نہیں ہو جاتے کہ وہ ایک دوسرے کا چہرہ نہیں دیکھ سکتے یا بوقت ضرورت ایک دوسرے کو غسل نہیں دے سکتے، شرعی طور پر مرنے کے بعد بیوی کو اس کا خاوند غسل دے سکتا ہے، اس طرح بیوی، اپنے فوت شدہ شوہر کو غسل دے سکتی ہے، بشرطیکہ اس کی ضرورت ہو اور وہاں کوئی دوسرا غسل دینے والا نہ ہو۔ جنازہ پڑھاتے وقت امام کہاں کھڑا ہو سوال:نماز جنازہ پڑھاتے وقت امام کو میت کے کس طرف کھڑا ہونا چاہیے، درمیان میں یا ایک طرف ہٹ کر؟ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے۔ جواب:جب نماز جنازہ پڑھا جائے تو امام کو مرد کے جنازہ میں اس کے سر کے پاس اور عورت کے جنازہ کے لیے اس کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے، حدیث میں اس کی صراحت ہے، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے ایک شخص کی نماز جنازہ پڑھائی تو اس کے سر کے پاس کھڑے ہوئے، جب اسے اٹھا لیا گیا تو ایک عورت کا جنازہ لایا گیا تو اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے پھر کسی نے دریافت کیا کہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اس طرح کھڑے ہوتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا: ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم مرد اور عورت کے جنازے کے لیے اس طرح کھڑے ہوتے تھے۔ [3] اسی طرح حضرت سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک عورت کا جنازہ پڑھا جو حالتِ نفاس میں فوت ہو گئی تھی تو آپ اس کے درمیان میں کھڑے ہوئے تھے۔ [4] ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آدمی کے جنازہ میں امام کو میت کے سر کے پاس اور عورت کے جنازہ میں اس کے درمیان میں کھڑا ہونا چاہیے۔ (واللہ اعلم) مشرک باپ کے لیے دعائے مغفرت کرنا سوال میرا باپ شرک کی حالت میں فوت ہوا ہے، کیا اس کے لیے مغفرت کی دعا کی جا سکتی ہے؟ قرآن و حدیث کے حوالے سے فتویٰ درکار ہے۔
[1] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۴۶۴۔ [2] بیہقی، ص: ۳۹۷،ج۴۔ [3] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۴۹۴۔ [4] صحیح بخاری، الجنائز: ۱۳۳۱۔