کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 18
طرف سے نہیں بلکہ اللہ کی طرف سے نازل شدہ وحی کے مطابق فتویٰ دیتے تھے اور اگر کسی سوال کا جواب دینے کے لیے آپ کے پاس وحی کا علم نہ ہوتا تو خاموش رہتے اور اللہ کی وحی کا انتظار کرتے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے:
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی چیز کے متعلق سوال کیا جاتا جس کے بارے میں وحی نہ اتری ہوتی تو آپ فرماتے: ’’میں نہیں جانتا‘‘ یا وحی اترنے تک خاموش رہتے اور کچھ جواب نہ دیتے اور آپ نے کوئی مسئلہ اپنی رائے یا قیاس سے نہیں بتایا، کیونکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ہم نے تمہاری طرف حق کے ساتھ اپنی کتاب نازل فرمائی ہے تاکہ تم لوگوں میں اس چیز کے مطابق فیصلہ کرو جس سے اللہ نے آپ کو شناسا کیا ہے۔‘‘ [1]
پھر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس دعویٰ کو ثابت کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث کا حوالہ دیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق سوال ہوا تو آپ خاموش رہے اور کوئی جواب نہ دیا حتی کہ روح کے بارے میں وہ آیت (۸۵) اتری جو سورۃ الاسراء میں ہے۔ [2]
اس کے بعد امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے مدعا کو مزید مضبوط کرنے کے لیے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ پیش کیا ہے وہ بیان کرتے ہیں کہ میں ایک دفعہ بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ میری تیمارداری کے لیے تشریف لائے، یہ دونوں بزرگ پیدل چل کر آئے تھے، جب یہ حضرات میرے پاس آئے تو مجھے غشی کا دورہ پڑا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر وضو کا پانی مجھ پر چھڑکا، اس سے مجھے کچھ افاقہ ہوا تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کے متعلق کس طرح فیصلہ کروں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے کوئی جواب نہ دیا تا آنکہ میراث سے متعلق آیت نازل ہوئی۔ [3]
امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی اس وضاحت سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب کسی ایسی چیز کے متعلق سوال کیا جاتا جس کے متعلق کوئی وحی نہ اتری ہوتی تو آپ کی دو حالتیں ہوتیں، آپ خاموش رہتے یا فرماتے مجھے اس کا علم نہیں ہے، عقل و قیاس سے جواب نہ دیتے تھے، جب وحی آتی تو جواب دیتے، بہرحال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وحی کے بغیر دینی مسائل کا جواب نہیں دیتے تھے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاموش رہنے کی مثال تو بیان کر دی لیکن لا ادری کہنے کا کوئی واقعہ بیان نہیں کیا، دراصل آپ نے ایک واقعہ کی طرف اشارہ کیا ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ کرۂ ارض میں کون سا خطہ بہتر اور کون سا بدتر ہے، تو آپ نے فرمایا: ’’میں نہیں جانتا ہوں، فرشتہ وحی سے معلوم کر کے بتاؤں گا۔‘‘ چنانچہ فرشتہ وحی لے کر نازل ہوا تو آپ نے سائل کو جواب دیا: ’’بہترین خطّہ اللہ کی مساجد اور بدترین مقام بازار ہیں۔‘‘ [4]
شارح بخاری حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ سوالات کا جواب دینے میں لوگوں کی تین اقسام حسب ذیل ہیں:
[1] ۴/النساء: ۱۰۵؛ صحیح بخاری، الاعتصام، باب نمبر۸۔
[2] صحیح بخاری، التفسیر: ۴۷۲۱
[3] صحیح بخاری، الاعتصام: ۷۳۰۹۔
[4] مستدرک حاکم،ص: ۷،ج۲۔