کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 175
بہرحال قریب الموت شخص کو لا الہ الا اللہ کی تلقین کرنی چاہیے جس کی دو صورتیں ہیں۔
(الف) اس کے پاس بیٹھ کر کلمہ طیبہ پڑھا جائے تاکہ وہ دیکھ کر اسے پڑھے اور اس کا خاتمہ ایمان پر ہو۔
(ب) اسے کلمہ طیبہ پڑھنے کے متعلق کہا جائے جیسا کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا کرنا ثابت ہے، لیکن سورۃ یٰسین وغیرہ کی تلاوت صحیح احادیث سے ثابت نہیں ہے۔ (واللہ اعلم)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیٹے کی نماز جنازہ
سوال:آپ نے اہل حدیث کے ایک شمارہ میں لکھا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ نہیں پڑھی تھی، اس کی کیا دلیل ہے؟ وضاحت کریں۔
جواب:سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ کے جنازہ کے متعلق مختلف احادیث مروی ہیں، چنانچہ بعض احادیث میں ان پر نماز جنازہ پڑھنے کا صراحت کے ساتھ ذکر ہے جیسا کہ حضرت ابن عباسرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر سیدنا ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو آپ نے ان کی نماز پڑھی تھی۔ [1]
لیکن اس حدیث کی سند میں ابراہیم بن عثمان راوی کے متعلق امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ محدثین کرام نے اس کے متعلق خاموشی اختیار کی ہے اور امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ جس راوی کے متعلق یہ الفاظ استعمال کریں وہ سخت ضعیف ہوتا ہے۔[2]
اسی طرح حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جنازہ پڑھا تھا۔ 3[3]لیکن اس کی سند میں مشہور ضعیف راوی جابر جعفی ہے، لہٰذا یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے۔ بہرحال جنازہ پڑھنے کے متعلق جس قدر روایات کتب حدیث میں مروی ہیں وہ ضعیف ہیں یا مرسل، اس قسم کی روایات محدثین کے ہاں قابل حجت نہیں ہیں، تفصیل کے لیے نصب الرایہ، ص: ۲۷۸،ج۲ کا مطالعہ مفید رہے گا۔
آپ کا جنازہ نہ پڑھنے کے متعلق صحیح روایات موجود ہیں جیسا کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ فوت ہو گئے تو آپ نے اس کا جنازہ نہیں پڑھا تھا۔ [4]اس روایت کے متعلق حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ھذا خبر صحیح ’’یہ صحیح خبر ہے۔‘‘ [5]
اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ پر نماز جنازہ پڑھنے کے متعلق سوال ہوا تو آپ نے فرمایا: مجھے پتہ نہیں ہے۔‘‘ [6]
[1] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۱۱۔
[2] حاشیہ ابن ماجہ، حدیث نمبر۱۵۱۱۔
[3] مسند امام احمد،ص: ۲۸۳،ج۴۔
[4] ابوداود، الجنائز: ۳۱۸۷۔
[5] محلیٰ ابن حزم، ص: ۱۵۸،ج۵۔
[6] مسند امام احمد، ص: ۲۸۱،ج۳۔