کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 174
اس حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ اس کے والدین کے لیے مغفرت و رحمت کی دعا کی جائے اور اس کا جنازہ پڑھا جائے۔ [1] اور یہ بات ظاہر ہے کہ نا تمام سے مراد وہ بچہ جو اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ پورے کر چکا ہو، اور اس میں روح پھونک دی گئی ہو پھر اس کی موت واقع ہوئی ہو، حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بچہ جب اپنی ماں کے پیٹ میں چار ماہ کی عمر کو پہنچتا ہے، تو اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔[2] اگر کوئی چار ماہ کی مدت سے پہلے ساقط ہو جائے تو اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی کیونکہ اسے اس صورت میں میت نہیں کہا جا سکتا۔ ایک روایت میں ہے کہ اس بچے کی نماز جنازہ پڑھی جائے جو پیدا ہونے کے بعد چیخ مارے اور اسے وارث بھی بنایا جائے۔[3] امام ترمذی نے بھی اس کے ضعف کی طرف اشارہ کیا ہے،الغرض چارماہ کے بعد اگر بچہ نا تمام یعنی مردہ پیدا ہو تو اس کا جنازہ پڑھنا مشروع ہے، نیز اسے گھر میں دفن نہیں کرنا چاہیے بلکہ مسلمانوں کے قبرستان میں ہی دفن کیا جائے، بعض جہلا اس کا نام رکھتے ہیں اور اس کا عقیقہ بھی کرتے ہیں، یہ سب باتیں خود ساختہ ہیں، کیونکہ نام رکھنا اور عقیقہ کرنا زندہ ہونے والے بچے کے ساتویں دن ہوتا ہے، واضح رہے نا تمام بچے کا اگر جنازہ نہ پڑھا جائے تو بھی جائز ہے جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کا جنازہ نہیں پڑھا تھا جن کی عمر تقریباً ڈیڑھ سال تھی۔ (واللہ اعلم) مرنے والے کے پاس سورۂ یٰسین پڑھنا سوال: کیا یہ صحیح ہے کہ مرنے والے کے پاس سورۂ یٰسین پڑھنے سے اس کی روح آسانی سے قبض ہو جاتی ہے؟ ہمارے ہاں ایسے موقع پر سورۂ یٰسین تلاوت کرنے کا عام رواج ہے، اس کی شرعی حیثیت واضح کریں۔ جواب: قریب الموت انسان کے پاس تلاوت قرآن خاص طور پر سورۂ یٰسین پڑھنے کی کوئی دلیل قرآن و سنت میں نہیں ہے بلکہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ میت کے قریب سورۃ یٰسین پڑھنے کے متعلق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔[4] عام طور پر اس سلسلہ میں دو روایات پیش کی جاتی ہیں جو محدثین کے معیار صحت پر پوری نہیں اترتیں۔ 1) حضرت معقل بن یسار رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے مرنے والوں کے قریب سورۃ یٰسین پڑھا کرو۔‘‘[5] ابن قحطان نے اس حدیث کو اضطراب اور ابو عثمان کی جہالت کی بناء پر معلول قرار دیا ہے، ابوبکر ابن العربی نے امام دارقطنی سے نقل کیا ہے کہ یہ حدیث ضعیف السند اور مجہول المتن ہے انہوں نے مزید کہا کہ اس باب میں کوئی صحیح حدیث مروی نہیں ہے۔ [6] 2) ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’جس میت پر سورۂ یٰسین کی تلاوت کی جاتی ہے اللہ تعالیٰ اس پر آسانی کر دیتے ہیں۔ [7] یہ روایت بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کی سند میں مروان بن سالم راوی ثقہ نہیں ہے۔[8] ابو عروبہ نے کہا کہ یہ راوی موضوع احادیث بیان کرتا ہے۔ [9]
[1] ابوداود، حدیث: ۳۱۸۰۔ [2] بخاری، بدء الخلق: ۳۲۰۸۔ [3] ترمذی، الجنائزء: ۱۰۳۲۔ [4] احکام الجنائز، ص: ۱۱۱۔ [5] مسند امام احمد، ص: ۵۲۶۔ [6] تلخیص الحبیر، ص: ۱۰۴،ج۲۔ [7] اخبار اصبہان، ص: ۱۸۸،ج۱۔ [8] میزان اعتدال، ص: ۹۰،ج۴۔ [9] تلخیص، ارواء الغلیل،ص: ۱۵۲،ج۳۔