کتاب: فتاویٰ اصحاب الحدیث(جلد 3) - صفحہ 172
قبر پر کتبہ لگانا سوال:قبر کی شناخت کے لیے اس پر کتبہ لگایا جا سکتا ہے یا نہیں؟ آج کل قبروں پر پتھر کی تختی لگائی جاتی ہے جس پر میت کا نام ولدیت اور تاریخ وفات درج ہوتی ہے، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب:قبر کی شناخت کے لیے اس پر کوئی پتھر وغیرہ رکھا جا سکتا ہے یا لکڑی گاڑی جا سکتی ہے اس میں چنداں حرج نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کو دفن کرنے کے بعد ان کی قبر پر ایک بھاری پتھر رکھا اور فرمایا: ’’اس نشانی سے میں اپنے بھائی کی قبر کو پہچان لوں گا اور اس کے اہل میں سے جو فوت ہو گا اس کے قریب ہی دفن کروں گا۔‘‘[1] حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی قبر پر بطور علامت ایک بھاری پتھر رکھا تھا۔ [2] لیکن قبر پر کتبہ لگانا، تختی پر اس کا نام، ولدیت اور تاریخ وفات لکھ کر قبر پر لگانا کسی صورت میں جائز نہیں ہے کیونکہ حدیث میں اس کی بطور خاص ممانعت ہے چنانچہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر پر کوئی بھی تحریر لکھنے سے منع فرمایا ہے۔ [3] اس حدیث کے مطابق قبر پر لکھنا یا کتبہ لگانا حرام ہے البتہ اس کی شناخت کے لیے کوئی جائز علامت رکھی جا سکتی ہے وہ پتھر ہو یا لکڑی، اسے رکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (واللہ اعلم) قبر پر دعا کرنا سوال:قبرستان میں اہل قبور کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے یا نہیں، اگر جائز ہے تو دعا کرتے وقت قبلہ رو ہونا چاہیے یا قبر کی طرف منہ کیا جائے؟ وضاحت فرمائیں۔ جواب:قبرستان میں اہل قبور کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا جائز ہے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت بقیع میں تشریف لے گئے، وہاں جا کر کھڑے ہوئے اور ہاتھ اٹھا کر دعا کی پھر واپس چلے آئے۔[4] ایک دوسری روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع میں تین مرتبہ ہاتھ اٹھ اکر اہل بقیع کے لیے دعا فرمائی۔[5]لیکن دعا کرتے وقت قبر کی طرف منہ کرنے کے بجائے قبلہ رو ہونا چاہیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔[6] چونکہ نماز کی روح دعا ہے اس لیے دعا کرتے وقت بھی قبر کی طرف منہ نہیں کرنا چاہیے، البتہ عام حالات میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے قبلہ رخ اور غیر قبلہ رخ دونوں طرح دعا کو جائز قرار دیا ہے، انہوں نے اپنی صحیح میں ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے ’’غیر قبلہ رخ دعا کرنا‘‘ [7] بہرحال قبرستان میں ہاتھ اٹھا کر دعا کی جا سکتی ہے لیکن دعا کرتے وقت قبلہ رخ ہونا چاہیے۔ (واللہ اعلم)
[1] ابوداود، الجنائز: ۳۲۰۶۔ [2] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۶۱۔ [3] ابن ماجہ، الجنائز: ۱۵۶۳۔ [4] مسند امام احمد،ص: ۹۲،ج۶۔ [5] صحیح مسلم، الجنائز: ۲۲۵۵۔ [6] صحیح مسلم، الجنائز: ۲۲۵۰۔ [7] کتاب الدعوات۔